(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا هشيم، قال: انبانا عبد الملك، عن عطاء، عن اسامة بن زيد، قال: دخلت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البيت، فجلس، فحمد الله، واثنى عليه، وكبر، وهلل ثم مال إلى ما بين يديه من البيت، فوضع صدره عليه، وخده ويديه، ثم كبر، وهلل، ودعا، فعل ذلك بالاركان كلها، ثم خرج، فاقبل على القبلة وهو على الباب:، فقال:" هذه القبلة، هذه القبلة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ، فَجَلَسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَكَبَّرَ، وَهَلَّلَ ثُمَّ مَالَ إِلَى مَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ الْبَيْتِ، فَوَضَعَ صَدْرَهُ عَلَيْهِ، وَخَدَّهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ كَبَّرَ، وَهَلَّلَ، وَدَعَا، فَعَلَ ذَلِكَ بِالْأَرْكَانِ كُلِّهَا، ثُمَّ خَرَجَ، فَأَقْبَلَ عَلَى الْقِبْلَةِ وَهُوَ عَلَى الْبَاب:، فَقَالَ:" هَذِهِ الْقِبْلَةُ، هَذِهِ الْقِبْلَةُ".
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر گیا۔ آپ بیٹھے پھر آپ نے اللہ کی حمد و ثنا اور تکبیر و تہلیل کی، پھر آپ بیت اللہ کے اس حصہ کی طرف جھکے جو آپ کے سامنے تھا، اور آپ نے اس پر اپنا سینہ، رخسار اور اپنے دونوں ہاتھ رکھے، پھر تکبیر و تہلیل کی، اور دعا مانگی، آپ نے اسی طرح خانہ کعبہ کے سبھی ستونوں پر کیا، پھر باہر نکلے دروازے کے پاس آئے، اور قبلہ رخ ہو کر فرمایا: ”یہی قبلہ ہے یہی قبلہ ہے ۱؎“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2918
اردو حاشہ: (1)”تکبیر“ اللہ اکبر کہنا ”تہلیل“ لا الہ الا اللہ کہنا اور ”تسبیح“ سبحان اللہ کہنا ہے۔ (2)”تمام کونوں میں کیا“ معلوم ہوا بیت اللہ کے کسی بھی کونے اور دیوار کے ساتھ چہرہ، سینہ، ہاتھ وغیرہ لگائے جا سکتے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ احادیث میں حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کونے کو چھونے کا ذکر نہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان دو کے علاوہ کسی کونے یا دیوار کو چھونا منع ہے۔ خصوصاً جبکہ رسول اللہﷺ سے ملتزم اور بیت اللہ کے اندر دیوار کونوں کو چھونا بلکہ چمٹا تک ثابت ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دو کونوں کے علاوہ (نیز ملتزم کے علاوہ) کسی کونے یا دیوار کو چھونا سنت نہیں، لیکن اس سے جواز کی نفی نہیں ہوتی جیسے رات کو گیارہ رکعت مسنون ہیں مگر اس سے کم و بیش جائز ہیں، منع نہیں جبکہ انھیں سنت نہ سمجھا جائے، بہت سے حضرات ایسے مقامات پر غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ سنت نہیں تو جائز بھی نہیں، مگر یہ بات غلط ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2918