عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے نہر اور چشمے سینچیں یا جس زمین میں تری رہتی ہو ۱؎ اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے۔ اور جو اونٹوں سے سینچا جائے یا ڈول سے اس میں بیسواں حصہ ہے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2490
اردو حاشہ: (1) اس سے ماقبل احادیث میں عشر والی فصل کا نصاب بیان کیا گیا تھا کہ کتنی فصل میں زکاۃ آئے گی؟ اس حدیث میں اس کی مقدار بیان کی گئی ہے کہ کتنی زکاۃ آئے گی؟ (2) باقی تمام چیزوں میں زکاۃ سال کے بعد واجب ہوتی ہے، مثلاً: جانور، سونا، چاندی، رقم اور سامان تجارت، مگر غلہ اور پھلوں، یعنی فصل کی زکاۃ اس کی پیداوار کے موقع پر ہوتی ہے، اس کے لیے ایک سال کی قید نہیں۔ عموماً ہر فصل سال میں ایک دفعہ ہی ہوتی ہے، اس لیے گویا اس میں بھی زکاۃ سال بعد ہی ہوئی، البتہ ادائیگی فصل کی کٹائی کے موقع ہی پر واجب ہوتی ہے۔ (3) جانوروں کی زکاۃ مخصوص ہے جو تفصیل سے پیچھے بیان ہوئی سونا، چاندی، رقم اور سامان تجارت کی زکاۃ کل مالیت کا چالیسواں حصہ ہوتی ہے لیکن فصل کی زکاۃ دسواں اور بیسواں حصہ ہوتی ہے اور اسے عموماً عشر کہا جاتا ہے۔ (4) فصل کی زکاۃ پانی کے لحاظ سے ہے۔ چونکہ فصل پانی کے بغیر نہیں ہوتی، لہٰذا پانی کا لحاظ ناگزیر تھا۔ اس سلسلے میں ضابطہ یہ ہے کہ جس پانی کے مہیا کرنے میں کوئی مشقت نہ ہو اور نہ اخراجات کرنے پڑتے ہوں، اس سے سیراب ہونے والی فصل کا دسواں حصہ (عشر بطور زکاۃ دینا ہوگا، مثلاً: بارش، دریاؤں، اور چشموں کا پانی اپنے آپ نظام کائنات کے تحت فصل تک پہنچتا ہے، صرف پانی کو روکنا، موڑنا اور کھولنا ہی پڑتا ہے اور یہ کوئی مشقت نہیں، کوئی زیادہ اخراجات بھی نہیں آتے، لہٰزا اس میں زکاۃ کی مقدار زیادہ رکھی گئی۔ اور جس پانی کے مہیا کرنے میں زیادہ مشقت ہو یا اخراجات کرنے پڑتے ہوں، اس سے سیراب ہونے والی فصل میں بیسواں حصہ (نصف عشر زکاۃ لاگو ہوگی، مثلاً: کنویں سے پانی نکالنا بہت مشقت کا کام ہے، خواہ ڈول کے ذریعے سے نکالا جائے یا جانور کے ذریعے سے یا ٹیوب ویلوں کے ذریعے سے۔ اسی طرح اگر پانی دور سے مشکیزوں یا برتنوں میں لا کر فصل سیراب کرنی پڑے تو بھی بہت مشقت ہے، نیز اس میں اخراجات بھی کرنے پڑتے ہیں اور جانوروں کو استعمال کرنا پڑتا ہے، لہٰذا ان میں زکاۃ کی مقدار کم رکھی گئی ہے۔ (5) بعض علاقوں میں نہری پانی ہوتا ہے، اپنے آپ پہنچتا ہے مگر آبیانہ دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر نہری پانی کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویل کا پانی بھی لگانا پڑتا ہو جس میں بہت اخراجات آتے ہیں یا فصل صرف ٹیوب ویل کے ذریعے سے سیراب ہوتی ہو تو ان صورتوں میں بیسواں حصہ زکاۃ ہوگی۔ ٹیوب ویل، کنویں اور رہٹ کے حکم میں ہے۔ (6) زکاۃ کس فصل میں ہے؟ یہ کافی اختلافی مسئلہ ہے، البتہ غلہ جات پر عشر متفقہ ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے ہر اس فصل پر زکاۃ واجب کی ہے جو خوراک ہو اور اسے ذخیرہ کیا جا سکے۔ احناف نے ماپی اور تولی جانے والی چیز میں زکاۃ واجب کی ہے بشرطیکہ اسے ذخیرہ کیا جا سکے، خوراک ہونا ضروری نہیں۔ جمہور اہل علم نے ذخیرہ ہو سکنے کو شرط مانا ہے۔ باقی رہے وہ پھل اور سبزیاں جو ذخیرہ نہیں ہو سکتے، جمہور کے نزدیک ان میں عشر نہیں، البتہ جن پھلوں کو کسی طریقے سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، ان میں عشر ہے، مثلاً: انگور کو منقیٰ کی صورت میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ خوبانیوں کو بھی خشک کیا جا سکتا ہے۔ کماد کو چونکہ چینی شکر اور گڑ کی صورت میں محفوظ کیا جا سکتا ہے، لہٰذا اس پر بھی عشر ہے۔ کپاس بھی قابل ذخیرہ چیز ہے، لہٰذا اس میں بھی عشر ہے، البتہ اس کے نصاب میں اختلاف ہے۔ اجتہاد کے ذریعے سے اس کے قلیل وکثیر میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ چارہ وغیرہ جو جانوروں کے لیے کاشت کیا جاتا ہے، عشر سے مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ وقتی ضرورت کے لیے ہے۔ (7) اس روایت کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ زمین کی ہر قلیل اور کثیر پیداوار میں عشر ہے، مگر نصاب کے بارے میں صریح روایات اس استدلال کے خلاف ہیں۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ جب باقی چیزوں، مثلاً: سونے، چاندی اور جانوروں وغیرہ میں نصاب معتبر ہے تو کیا وجہ ہے کہ فصل میں نصاب معتبر نہ ہو؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2490
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 495
´زمین کو مختلف ذرائع سے سیراب کرنے کی صورت میں زکاۃ (عشر) کی نوعیت بھی مختلف ہے` ”سیدنا سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو زمین آسمانی بارش اور چشموں سے سیراب ہوتی ہو یا رطوبت والی ہو اس میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے (عشر ہے) اور جو زمین پانی کھینچ کر سیراب کی جاتی ہو۔ اس میں بیسواں حصہ (نصف عشر) ہے۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 495]
لغوی تشریح: «فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ» اس سے مراد بارش، اولے، برف، شبنم وغیرہ ہے، اور یہ خبر مقدم ہے۔ «وَالْعُيُونُ» «عين» کی جمع ہے۔ ان چشموں کو کہتے ہیں جو زمین کا پیٹ چاک کر کے نکل آتے ہیں اور کبھی کبھی ان سے نہریں بن جایا کرتی ہیں اور بسا اوقات نالوں کی صورت میں پانی بہتا ہے اور ان سے پانی لینا آسان ہوتا ہے، نہ تو بار بار ان سے چلو بھرنے پڑتے ہیں اور نہ کسی آلے کے ذریعے سے نکالنے کا تکلف کرنا پڑتا ہے، بلکہ بغیر کسی مشقت و محنت کے ان کا پانی حاصل ہو جاتا ہے۔ «اَوْ كَانَ عَثَرِيّاً»”عین“ اور ”ثا“ دونوں پر فتحہ ”را“ کے نیچے کسرہ اور ”یا“ پر تشدید ہے۔ وہ زمین جو اپنی جڑوں کے ذریعے سے پانی کھنیچ کر خوراک حاصل کر کے پروان چڑھتی ہے۔ زمین میں کیونکہ نمی ہوتی ہے اور پانی سطح زمین کے قریب ہوتا ہے، اس لیے وہ زمین بغیر سیراب کیے، بغیر نالوں کا تکلف کیے پانی حاصل کرلیتی ہے «اَلَعشْرُ» مبتدا موخر ہے۔ ”عین“ پر ضمہ اور ”شین“ ساکن ہے۔ ایک چیز کے دس حصے کر لیے جائیں تو اس کا ایک جز عشر کہلائے گا۔ «وَفِيمَا سُقِيَ» صیغہ مجہول۔ اس زمین میں جسے سیراب کیا جائے۔ «بِاانَّصَحِ» نضح کے ”نون“ پر فتحہ اور ”ضاد“ ساکن ہے۔ اصل میں اس کے معنی ہیں: پانی کا چھڑکاو کرنا اور بہا دینا۔ یہاں وہ اونٹ مراد ہیں جن کے ذریعے سے پانی لاکر زمین سیراب کی جاتی ہے۔ اونٹ کی طرح بیل اور گدھے بھی مراد ہیں جن سے پانی حاصل کرنے کی خدمت لی جاتی ہے۔ «بَعْلً» ا یعنی «عَثَرِيًّا» کے بدلے «بَعْلًا» کا لفظ روایت کیا ہے۔ «بَعْل» کی ”با“ پر فتحہ اور ”عین“ ساکن ہے۔ اس سے مراد وہ زمین ہے جو سیراب کیے بغیر زمین کی نمی و رطوبت یا آسمانی بارش کے ذریعے سے سیراب ہوتی ہو۔ اس کے معنی بھی قریب قریب وہی ہیں جو «عثري»(نمی والی زمین) کے ہیں، یا پھر دونوں مترادف المعنی ہیں۔ «بِالسَّوَاني اَوِ النَّضْح سَوَانِي»، «سَانِيَةٌ» کی جمع ہے۔ عطف اس کا تقاضا کرتا ہے کہ «سَانِيَةَ» اور «نَضْح» کے معنی الگ الگ ہوں مگر عموماً علماء نے انہیں مترادف قرار دیا ہے جیسا کہ ابھی ہم نے ذکر کیا ہے لیکن قابل اعتماد بات یہ ہے کہ «سائيه» جانوروں کے ذریعے سے پانی لاکر زمین کو سیراب کرنے کا نام ہے اور نضح عام ہے۔ اس جانوروں کے ساتھ ساتھ سیراب کرنے کے تمام ذرائع و آلات شامل ہیں۔ اس طرح عام عطف خاص پر ہے۔ اور خلاصہ کلام یہی ہے کہ جس زمین کا سیراب کرنا مشقت طلب اور باعث تھکاوٹ ہو۔
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمین کو مختلف ذرائع سے سیراب کرنے کی صورت میں زکاۃ (عشر) کی نوعیت بھی مختلف ہے، مثلاً: جو زمین مشقت طلب ذریعے سے سیراب ہو، جیسے اونٹ، بیل یا آدمی پانی نکال کر یا لا کر سیراب کرتے ہوں تو اس زمین کی پیداوار پر نصف عشر (بیسواں) حصہ ہے۔ اسی طرح اگر زمین کنوئیں اور ٹیوب ویل کے پانی سے یا پانی خرید کر سیراب کی جاتی ہو تب بھی نصف عشر (بیسواں حصہ) ہے۔ آج کل آبیانہ دے کر زمین سیراب کی جاتی ہے۔ یہ آبیانہ مشقت و محنت کے قائم مقام ہے، لہٰذا موجودہ نظام کے تحت نہری پانی سے سیراب کی جانے والی زمینوں کی پیداوار میں بھی بیسواں حصہ ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 495
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1817
´غلوں اور پھلوں کی زکاۃ کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو غلہ اور پھل بارش، نہر، چشمہ یا زمین کی تری (سیرابی) سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جسے جانوروں کے ذریعہ سینچا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1817]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بعل نمی سے سراب ہونے والا، یعنی جسے بارش اور آبپاشی کی ضرورت نہ ہو جیسے دریا کے قریب کی زمین میں اگنے والی فصل ہوتی ہے۔ اسی طرح کھجور کے درختوں کی جڑیں بھی بہت گہرائی میں چلی جاتی ہیں تو بعض علاقوں میں ان کو آب پاشی کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایسی پیداوار میں دسواں حصہ زکاۃ ہے۔
(2) سَوَانِی کا واحد سَانِیَة ہے، یعنی وہ اونٹنی جس پر لاد کر پانی لایا جائے۔ آج کل بعض مقامات پر ٹینکروں یا پائپ لائنوں کے ذریعے سے پانی پہنچایا جاتا ہے جس پر کافی خرچ آتا ہے یہ بھی اسی حکم میں ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1817
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1483
1483. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”جوکھیتی بارش یا چشمے کے پانی سے سیراب ہو یا وہ زمین جو خود بخود سیراب ہو، اس میں دسواں حصہ لیا جائے۔ اور جو کھیتی کنویں کے پانی سے سینچی جائے اس سے بیسواں حصہ لیا جائے۔“ امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ یہ پہلی حدیث کی تفسیر ہے کیونکہ پہلی حدیث، یعنی ابن عمر ؓ سے مروی وہ حدیث کہ ”جوکھیتی بارش سے سیراب ہو اس میں دسواں حصہ ہے۔“ اس میں نصاب کا تعین نہیں ہے، اور اس حدیث میں نصاب کو بیان کیاگیا ہے۔ اور ثقہ راوی کا اضافہ قبول ہوتا ہے۔ اور مفسر روایت مبہم روایت کا فیصلہ کرتی ہے جبکہ اسے اہل ثبت، یعنی ثقہ راوی بیان کریں جیسا کہ فضل بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی اور حضرت بلال ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے، حضرت بلال ؓ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1483]
حدیث حاشیہ: اصول حدیث میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ثقہ اور ضابط شخص کی زیادتی مقبول ہے۔ اسی بناپر ابوسعید ؓ کی حدیث ہے جس میں یہ مذکور نہیں ہے کہ زکوٰۃ میں مال کا کون سا حصہ لیا جائے گا یعنی دسواں حصہ یا بیسواں حصہ اس حدیث یعنی ابن عمر کی حدیث میں زیادتی ہے تو یہ زیادتی واجب القبول ہوگی۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے یہ حدیث یعنی ابوسعید کی حدیث پہلی حدیث یعنی ابن عمر ؓ کی حدیث کی تفسیر کرتی ہے۔ کیونکہ ابن عمر ؓ کی حدیث میں نصاب کی مقدار مذکور نہیں ہے۔ بلکہ ہر ایک پیداوار سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ لیے جانے کا اس میں ذکر ہے۔ خواہ پانچ وسق ہو یا اس سے کم ہو۔ اور ابوسعید ؓ کی حدیث میں تفصیل ہے کہ پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ تو یہ زیادتی ہے۔ اور زیادتی ثقہ اور معتبر راوی کی مقبول ہے۔ (وحیدالزماں مرحوم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1483
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1483
1483. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”جوکھیتی بارش یا چشمے کے پانی سے سیراب ہو یا وہ زمین جو خود بخود سیراب ہو، اس میں دسواں حصہ لیا جائے۔ اور جو کھیتی کنویں کے پانی سے سینچی جائے اس سے بیسواں حصہ لیا جائے۔“ امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ یہ پہلی حدیث کی تفسیر ہے کیونکہ پہلی حدیث، یعنی ابن عمر ؓ سے مروی وہ حدیث کہ ”جوکھیتی بارش سے سیراب ہو اس میں دسواں حصہ ہے۔“ اس میں نصاب کا تعین نہیں ہے، اور اس حدیث میں نصاب کو بیان کیاگیا ہے۔ اور ثقہ راوی کا اضافہ قبول ہوتا ہے۔ اور مفسر روایت مبہم روایت کا فیصلہ کرتی ہے جبکہ اسے اہل ثبت، یعنی ثقہ راوی بیان کریں جیسا کہ فضل بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی اور حضرت بلال ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے، حضرت بلال ؓ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1483]
حدیث حاشیہ: (1) پہلی حدیث حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ جس زمین کو بارش اور چشموں نے سیراب کیا ہو اس میں دسواں حصہ ہے اور دوسری حدیث ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ پانچ وسق سے کم مقدار پیداوار میں کوئی صدقہ نہیں ہے، جو اس کے بعد بیان ہو گی، اس دوسری حدیث، یعنی حدیث ابو سعید خدری نے پہلی حدیث کی تفسیر کی ہے کہ مطلق طور پر تمام پیداوار سے نہیں بلکہ جب وہ پانچ وسق مقدار ہو گی تو اس سے عشر وصول کیا جائے گا، اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مذکورہ نوٹ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث کے بعد ہے، دراصل یہ دونوں احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہيں، کیونکہ عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث میں نصاب کی تعیین نہیں ہے، اسے ابو سعید خدری ؓ کی حدیث سے مقرر کیا جائے گا اور حضرت ابو سعید خدری کی حدیث میں عشر یا نصف عشر کی تفصیل نہیں ہے، اسے عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث سے اخذ کیا جائے گا، چونکہ امام بخاری ؒ نے ایک اصول بیان کیا ہے کہ اگر کسی روایت میں ابہام ہے تو اسے دوسری روایات سے دور کیا جائے گا اور اگر کسی روایت میں اضافہ ہے تو اسے قبول کیا جائے گا بشرطیکہ اس اضافے کو بیان کرنے والا عادل اور ثقہ راوی ہو جیسا کہ آپ نے حضرت بلال ؓ کا حوالہ دیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: رسول الله ﷺ نے کعبہ شریف میں نماز پڑھی اور حضرت فضل بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے بیت اللہ کے اندر نماز نہیں پڑھی، چونکہ حضرت بلال ؓ ایک اضافی چیز بیان کرتے ہیں، اس لیے فیصلہ انہی کے بیان پر ہو گا کہ واقعی رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے اندر نماز ادا کی ہے، اسی طرح پیداوار کے متعلق فیصلہ کن روایت وہ ہے جس میں نصاب کی تعیین ہے، یا جس میں عشر اور نصف عشر کی تفصیل ہے۔ (2) عشر، زمین کی کس قسم کی پیداوار سے کتنا ادا کرنا پڑتا ہے، اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: عشر کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾(الانعام141: 6) ”فصل کاٹتے ہی اس سے اللہ کا حق ادا کرو۔ “ نیز قرآن کریم میں ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ﴾(البقرۃ267: 2) ”اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائی ہیں اور ان میں سے بھی جنہیں ہم نے تمہارے لے زمین سے پیدا کیا ہے۔ “ پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے حق سے مراد وہ صدقہ ہے جو اللہ کے نام پر زمین کی پیداوار سے فقراء و مساکین کو دیا جائے، کیونکہ یہ فصل اللہ ہی نے اپنے فضل و کرم سے پیدا کی ہے، اس مقام پر اس ”حق“ کی مقدار معین نہیں کی گئی بلکہ اس کا تعین خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے: ”وہ زمین جسے بارش یا قدرتی چشمے کا پانی سیراب کرتا ہو، یا وہ کسی دریا کے کنارے ہونے کی وجہ سے خودبخود سیراب ہو جاتی ہو، اس قسم کی زمین کی پیداوار سے دسواں حصہ بطور عشر لیا جائے گا اور وہ زمین جسے کنویں وغیرہ سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو، اس کی پیداوار سے نصف العشر، یعنی بیسواں حصہ لیا جائے گا۔ “ اس حدیث میں پیداوار دینے والی زمین کی حقیقت اور اس کی پیداوار پر مقدار عشر کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ شریعت نے مقدار عشر کے لیے زمین کی سیرابی، یعنی پیداوار لینے کے لیے پانی کو مدار قرار دیا ہے۔ اگر کھیتی کو سیراب کرنے کے لیے پانی بسہولت دستیاب ہے، اس پر کسی قسم کی محنت یا مشقت نہیں اٹھانی پڑتی تو اس میں پیداوار کا عشر، یعنی دسواں حصہ بطور زکاۃ نکالنا ہو گا۔ اس کے برعکس اگر پانی حاصل کرنے کے لیے محنت و مشقت اُٹھانی پڑتی ہو یا اخراجات برداشت کرنا پڑیں تو اس میں نصف العشر، یعنی بیسواں حصہ ہے۔ (3) ہمارے ہاں عام طور پر زمینوں کی آبپاشی دو طرح سے ہے: ٭ نہر کا پانی: حکومت نے اس کے لیے ایک مستقل محکمہ ”انہار“ قائم کر رکھا ہے، اس پر زمیندار کو محنت و مشقت کے علاوہ اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ آبیانہ وغیرہ ادا کرنا ہوتا ہے، اس کے باوجود نہری پانی فصلوں کے لیے کافی نہیں ہوتا، اس کے لیے دوسرے ذرائع سے ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ ٭ ٹیوب ویل: اول تو ٹیوب ویل لگانے کے لیے کافی رقم درکار ہوتی ہے، جب اس کی تنصیب مکمل ہو جاتی ہے تو محکمہ واپڈا کا رحم و کرم شروع ہو جاتا ہے، اس کا کنکشن حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اس کے بعد تیسرا مرحلہ جو مسلسل جاری رہتا ہے وہ ماہ بماہ کمر توڑ اور اعصاب شکن بجلی کے بل کی ادائیگی سے یا پھر گھنٹے کے حساب سے پانی خرید کر فصل کو سیراب کیا جاتا ہے، لہذا زمین سے پیداوار لینے کے لیے ذاتی محنت و مشقت اور مالی اخراجات کے پیش نظر ہمارے ہاں پیداوار پر نصف عشر، یعنی بیسواں حصہ بطور زکاۃ دینا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس کے علاوہ جتنے بھی اخراجات ہیں ان کا تعلق زمین کی سیرابی یا آبپاشی سے نہیں بلکہ وہ اخراجات زمیندار پیداوار بچانے یا بڑھانے کے لیے کرتا ہے، مثلا: کھاد یا سپرے وغیرہ، پھر زمیندار اپنی محنت و مشقت سے بچنے اور اپنی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ اخراجات کرتا ہے، مثلا: بوتے وقت ٹریکٹر کا استعمال، کٹائی کے وقت مزدور لگانا یا فصل اُٹھاتے وقت تھریشر کا استعمال ہوتا ہے۔ (4) مذکورہ حدیث میں مقدار جنس کو بیان نہیں کیا گیا، یعنی کتنے نصاب پر عشر واجب ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے جو آئندہ بیان ہو گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانچ وسق سے کم پیداوار میں زکاۃ، یعنی عشر نہیں ہے۔ “(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1484) وسق کی مقدار آئندہ حدیث کے فوائد میں ذکر کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں عام طور پر مہاجرین تاجر اور انصار زراعت پیشہ تھے، وہ لوگ زمین کو خود کاشت کرتے تھے اور خود ہی کاٹتے اور فصل اُٹھاتے تھے، زمین کی سیرابی کے لیے انہیں محنت و مشقت اور اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے پیداوار سے بیسواں حصہ بطور عشر ادا کرنا ضروری تھا، اس کے علاوہ کسی قسم کے اخراجات پیداوار سے ضبط نہیں کیے جاتے تھے۔ ہمارے ہاں قدرتی وسائل سے سیراب ہونے والی زمینیں بہت کم ہیں جن سے پیداوار کا دسواں حصہ لیا جاتا ہے۔ (5) اب عشر کے متعلق کچھ وضاحتیں پیش خدمت ہیں: ٭ زرعی زکاۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ جب بھی فصل کاٹی جائے اسی وقت زکاۃ واجب ہو گی جیسا کہ درج ذیل آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے: ﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾”فصل کاٹتے وقت ہی اس سے اللہ کا حق ادا کرو۔ “(الأنعام141: 6) ٭ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گندم، جو، منقی اور کھجور سے زکاۃ لی جاتی تھی مگر ہمارے ہاں اور بھی اجناس بکثرت پیدا ہوتی ہیں، مثلا: چاول، چنے، جوار، باجرہ اور مکئی وغیرہ، ان سب اجناس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے۔ ٭ ایسی سبزیاں اور ترکاریاں جو جلدی خراب نہیں ہوتی، مثلا: آلو، پیاز، لہسن، ادرک، اور پیٹھا وغیرہ ان پر بھی زرعی زکاۃ، یعنی عشر واجب ہو گا، لیکن جو ترکاریاں تازہ استعمال ہوتی ہیں اور جلدی خراب ہو جاتی ہیں، مثلا: کدو، ٹینڈا، کریلے اور توریاں وغیرہ ان پر زرعی زکاۃ نہیں بلکہ ان کے منافع پر تجارتی زکاۃ لاگو ہو گی بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے، اس سے اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ ٭ پھلوں میں بھی زرعی زکاۃ ہے بشرطیکہ انہیں دیر تک استعمال کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں منقی اور کھجور سے عشر ادا کیا جاتا تھا لیکن ہمارے ہاں ان کے علاوہ اور بھی بہت سے خشک پھل ہیں، مثلا: اخروٹ، بادام، خوبانی اور مونگ پھلی وغیرہ، اگر اس قسم کے پھل حد نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر زرعی زکاۃ واجب ہو گی۔ ٭ کپاس بھی زمینی پیداوار ہے اور ہمارے ملک میں خاصی منفعت بخش فصل ہے، لہذا اس سے بھی عشر ادا کرنا ہو گا، یعنی بیس من میں سے ایک من بطور عشر ادا کیا جائے۔ اگر کوئی کاشتکار تجارت پیشہ بھی ہے تو اسے چاہیے کہ اگر کپاس کی پیداوار حد نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے پہلے عشر ادا کرے اور پھر اگر اسے تجارت میں فروخت کر دیتا ہے تو اس کی رقم اگر حد نصاب کو پہنچ جائے تو تجارتی زکاۃ بھی ادا کرے، یعنی کھیتی کا حساب الگ ہو گا اور تجارتی مال کی زکاۃ کا حساب الگ ہو گا، تجارتی مال کی رقم کسی مد میں بھی آئے اس پر زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے۔ ٭ ہمارے بعض علاقوں میں گنا بھی کاشت کیا جاتا ہے۔ اگر اسے ملوں میں فروخت کر دیا جائے تو اس سے تجارتی زکاۃ دینا ہو گی اور اگر اسے بطور چارہ حیوانات کو کھلا دیا جائے تو قابل معافی ہے۔ اگر اس کماد سے گڑ، شکر یا چینی بنائی جائے تو اس سے عشر دینا ہو گا بشرطیکہ حد نصاب کو پہنچ جائے۔ ٭ اگر کسی نے اپنی زمین کسی دوسرے کو عاریتا بطور کاشت دی ہے تو اس صورت میں جس نے فصل اٹھائی ہے وہی اس کا عشر ادا کرے گا، مالک زمین کے ذمے اس کی ادائیگی نہیں کیونکہ اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اگر زمین کے مالک نے کسی دوسرے کو طے شدہ حصے پر کاشت کرنے کے لیے دی ہے تو اس صورت میں دو موقف ہیں: (ا) ہر ایک کا حصہ اگر حد نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے عشر دینا ہو گا، اگر کسی کا بھی حصہ حد نصاب کو نہیں پہنچتا تو کسی پر بھی عشر واجب نہیں، یعنی جس شخص کا حصہ نصاب کو پہنچ جائے اسے اپنے حصے سے عشر دینا ہو گا۔ (ب) امام شافعی اور امام احمد ؒ کا موقف یہ ہے کہ اگر مجموعی پیداوار حد نصاب کو پہنچ جائے تو ہر ایک اپنے حصے کے مطابق عشر ادا کرے، پھر دونوں طے شدہ حصوں کے مطابق پیداوار کو تقسیم کر لیں۔ ہمارے نزدیک یہ دوسرا موقف زیادہ وزنی ہے، نیز اس میں غرباء اور مساکین کا بھی فائدہ ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1483