(قدسي) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن ربعي، عن حذيفة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" كان رجل ممن كان قبلكم يسيء الظن بعمله، فلما حضرته الوفاة , قال لاهله: إذا انا مت فاحرقوني، ثم اطحنوني، ثم اذروني في البحر، فإن الله إن يقدر علي لم يغفر لي، قال: فامر الله عز وجل الملائكة فتلقت روحه , قال له: ما حملك على ما فعلت؟ قال: يا رب , ما فعلت إلا من مخافتك، فغفر الله له". (قدسي) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" كَانَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يُسِيءُ الظَّنَّ بِعَمَلِهِ، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ , قَالَ لِأَهْلِهِ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِي، ثُمَّ اطْحَنُونِي، ثُمَّ اذْرُونِي فِي الْبَحْرِ، فَإِنَّ اللَّهَ إِنْ يَقْدِرْ عَلَيَّ لَمْ يَغْفِرْ لِي، قَالَ: فَأَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمَلَائِكَةَ فَتَلَقَّتْ رُوحَهُ , قَالَ لَهُ: مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ؟ قَالَ: يَا رَبِّ , مَا فَعَلْتُ إِلَّا مِنْ مَخَافَتِكَ، فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ".
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے لوگوں میں کا ایک آدمی اپنے اعمال کے سلسلہ میں بدگمان تھا، چنانچہ جب موت (کا وقت) آپ پہنچا، تو اس نے اپنے گھر والوں سے کہا: جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا، پھر پیس ڈالنا، پھر مجھے دریا میں اڑا دینا، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہو گا تو وہ مجھے بخشے گا نہیں، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا تو وہ اس کی روح کو پکڑ کر لائے، اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا: تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے ابھارا؟ اس نے کہا: اے میرے رب! میں نے صرف تیرے خوف کی وجہ سے ایسا کیا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا“۔
إذا أنا مت فأحرقوني ثم اطحنوني ثم اذروني في البحر فإن الله إن يقدر علي لم يغفر لي قال فأمر الله الملائكة فتلقت روحه قال له ما حملك على ما فعلت قال يا رب ما فعلت إلا من مخافتك
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2082
اردو حاشہ: دفن کے بعد ”روح“ کا ”جسم“ سے اتنا تعلق ہو جاتا ہے کہ سوال و جواب ہوسکیں، مگر یہ دنیوی زندگی سے یکسر مختلف ہے، پھر روح کو (علیین) اور (سجین) میں بھیجا جاتا ہے۔ (علیین) اللہ تعالیٰ کے عرش کے پاس ایک مقام ہے اور (سجین) زمین کے نیچے جہنم کے قریب، لیکن اس کا تعلق اپنے جسم، خواہ وہ کسی حال میں ہو، سے ایک حد تک قائم رہتا ہے حتیٰ کہ قیامت کے دن دوبارہ ارواح اجسام میں داخل ہو جائیں گی۔ یاد رہے روح اور جسم کا تعلق (برزخی زندگی میں) ہماری سمجھ میں آنے والی چیز نہیں۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے نہ ہمارے دماغ ایسی چیزیں سمجھنے کے لیے بنائے گئے ہیں، جیسے بھینس ریاضی نہیں سمجھ سکتی، اگرچہ دو اور دو چار ہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2082