علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے جنازے کے لیے جب تک رکھ نہ دیا جائے کھڑے رہنے کا ذکر کیا گیا، تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (پہلے) کھڑے رہتے تھے پھر بیٹھنے لگے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1924
´کافر اور مشرک کے جنازے کے لیے نہ کھڑے ہونے کی رخصت کا بیان۔` ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھے (اتنے میں) ایک جنازہ گزرا تو لوگ کھڑے ہو گئے، تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: ابوموسیٰ اشعری کا حکم ہے، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت کے جنازے کے لیے کھڑے ہوئے تھے، (پھر) اس کے بعد آپ کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1924]
1924۔ اردو حاشیہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے علم و رؤیت کی بات کر رہے ہیں ورنہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہونے کی روایات صراحتاً آئی ہیں۔ قولی روایات اس کے علاوہ ہیں۔ جن میں ہر جنازے کا ذکر ہے۔ ان روایات کے مقابلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اصول حدیث کی رو سے مرجوح ہے۔ عمل ان روایات ہی پر ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا: جا سکتا ہے کہ قیام واجب نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1924
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1544
´جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کا بیان۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہوئے، پھر آپ بیٹھ گئے، تو ہم بھی بیٹھ گئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1544]
اردو حاشہ: فائدہ: حضرت اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونا منسوخ ہے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے جب (قام) اور (قمنا) کے لفظ میں استمرار (ایک کام بار بار کرنے) کا مفہوم سمجھا جائے اور یوں ترجمہ کیا جائے۔ نبی ﷺ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوتے تھے تو ہم بھی کھڑے ہوتے تھے۔ پھر نبی کریمﷺ بیٹھنے لگے تو ہم نے بھی بیٹھنا شروع کردیا۔ لیکن اس کا ایک دوسرا ترجمہ بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی (قام) اور (قمنا) سے ایک دفعہ کا واقعہ سمجھا جائے تو مطلب یہ ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہوگئے حتیٰ کہ نبی کریمﷺ کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہوگئے نبی کریمﷺ بیٹھے تو ہم بھی بیٹھ گئے۔ یعنی جب تک نبی کریمﷺ کھڑے رہے ہم بھی کھڑے رہے۔ جب جنازہ گزر گیا تو نبی کریمﷺبیٹھ گئے تب ہم بھی بیٹھ گئے۔ اس صورت میں کھڑا ہونا منسوخ نہیں سمجھاجائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1544
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:50
50- عبداللہ بن سخبرہ ازدی بیان کرتے ہیں: کچھ لوگ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگ اس کے لیے کھڑے ہوگئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: یہ کیا طریقہ ہے؟ لوگوں نے عرض کی: سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ اس کا حکم دیتے ہیں، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اس (جنازے) کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہ عمل نہیں کیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:50]
فائدہ: اس حدیث میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ پہلے حکم یہی تھا کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جاتے لیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جنازہ دیکھ کر) کھڑے ہوئے، تو ہم لوگ بھی کھڑے ہوئے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو ہم بھی بیٹھے رہے۔ (صحیح مسلم: 962) مسند أحمد: 82/1 میں ہے کہ «كـان رسـول الله أمرنا بالقيام فى الجنازة ثم جلس بعد ذلك وأمرنا بالجلوس» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو جناز ہ (دیکھ کر) کھڑے ہونے کا حکم فرمایا تھا، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے اور ہمیں بھی بیٹھنے کا حکم فرماتے۔ ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونا ضروری نہیں ہے۔ پہلے یہ کم تھا لیکن بعد میں یہ منسوخ ہو گیا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 50