کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز قبیلہ بنی عبدالاشہل کی مسجد میں پڑھی، جب آپ پڑھ چکے تو کچھ لوگ کھڑے ہو کر سنت پڑھنے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس (سنت) نماز کو گھروں میں پڑھنے کی پابندی کرو“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1601
1601۔ اردو حاشیہ: یہ ”نماز“ یعنی مغرب کی سنتیں یا مطلقاً سنتیں اور نافل۔ یہ امر استحباب کے لیے ہے، نہ کہ وجوب کے لیے کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے بعد نوافل مسجد میں پڑھنا ثابت ہے۔ دیکھیے: (سنن ابی داود، التطوع، حدیث: 1301) آج کل زندگی اس قدر تیز اور مصروف ہو گئی ہے کہ فرضوں کے بعد والی سنتیں رہ جانے کا خطرہ ہے جو ایک قبیح باب ہے اگر ایسی ہو تو سنن رواتب فرض نماز کے بعد مسجد ہی میں ادا کرلینی چاہییں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1601
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1300
´مغرب کی دو رکعت سنت کہاں پڑھی جائے؟` کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو عبدالاشہل کی مسجد میں آئے اور اس میں مغرب ادا کی، جب لوگ نماز پڑھ چکے تو آپ نے ان کو دیکھا کہ نفل پڑھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو گھروں کی نماز ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1300]
1300۔ اردو حاشیہ: مستحب یہی ہے کہ مغرب کی سنتیں یا اس کے بعد دیگر نوافل گھروں میں پڑھے جائیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1300
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 604
´مغرب کے بعد کی نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے۔` کعب بن عجرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبدالاشہل کی مسجد میں مغرب پڑھی، کچھ لوگ نفل پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اس نماز کو گھروں میں پڑھنے کو لازم پکڑو۔“[سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 604]
اردو حاشہ: 1؎: نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق عام طور پر سنن و نوافل گھر ہی پڑھنا افضل ہے، ہاں جائز ہے کہ مسجد میں پڑھ لے، اور اس زمانہ میں تو مسجد ہی میں پڑھنا اچھا ہے کیونکہ اکثر گھروں میں نماز کا انتظام نہیں ہے، آدمی گھر پہنچتے ہی بعض مسائل سے دوچار ہو کر نماز بھول جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ، بالکل نہ پڑھنے سے تو بہتر ہے کہ مسجد ہی میں پڑھے، ہاں اگر کسی کو اپنے پر پوری قدرت ہو تو ضرور گھر ہی میں پڑھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 604