تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب إذا وافق يوم الجمعة يوم عيد، حديث:1070، والنسائي، صلاة العيدين، حديث:1592، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1310، وأحمد:4 /372، وابن خزيمة:2 /359، حديث:1464.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ایک ہی دن میں جمعہ اور عید آگئی تو آپ نے نماز عید ادا فرمائی اور جمعہ کو ہر آدمی کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔
ابوداود میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے‘ آپ نے فرمایا:
”اس دن دو عیدوں کا اجتماع ہوگیا ہے‘ چنانچہ جو چاہے عید کی نماز کو کافی سمجھ لے‘ البتہ ہم جمعہ ضرور ادا کریں گے۔
“ (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب إذا وافق یوم الجمعۃ یوم عید‘ حدیث:۱۰۷۳) 2. اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ اگر عید کے روز جمعہ ہو تو عید پڑھنے کے بعد جمعہ ادا کرنا فرض نہیں رہتا بلکہ ظہر کی نماز پڑھی جاسکتی ہے‘ اس لیے دور دراز سے آنے والے اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
مگر احناف اس کے قائل نہیں۔
3.عوام کا یہ تصور کہ عید اور جمعہ اکٹھے ایک ہی دن آجائیں تو برسر اقتدار حکومت کا زوال ہوتا ہے‘ یہ سراسر وہم پر مبنی ہے۔
آپ نے تو اسے دو عیدوں کا دن قرار دیا ہے مگر بے خبری میں عوام اس سے بدشگونی لیتے ہیں جو قطعاً غلط ہے۔