(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: انبانا إسماعيل، قال: حدثنا حميد، عن انس بن مالك، قال: كان لاهل الجاهلية يومان في كل سنة يلعبون فيهما , فلما قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة , قال:" كان لكم يومان تلعبون فيهما , وقد ابدلكم الله بهما خيرا منهما يوم الفطر ويوم الاضحى". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ، قال: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: كَانَ لِأَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَانِ فِي كُلِّ سَنَةٍ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا , فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ , قَالَ:" كَانَ لَكُمْ يَوْمَانِ تَلْعَبُونَ فِيهِمَا , وَقَدْ أَبْدَلَكُمُ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے لوگوں کے لیے سال میں دو دن ایسے ہوتے تھے جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ سے ہجرت کر کے) مدینہ آئے تو آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے دو دن تھے جن میں تم کھیل کود کیا کرتے تھے (اب) اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلہ ان سے بہتر دو دن دے دیئے ہیں: ایک عید الفطر کا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1557
1557۔ اردو حاشیہ: ➊ ”دودن“ سے نوروز اور مہرجان مراد ہیں۔ نوروز تو نئے سال کا پہلا دن ہوتا تھا اور مہرجان موسم بہار کی مناسبت سے جشن کی صورت میں منایا جاتا تھا۔ یہ دونوں ایرانیوں کی عیدیں تھیں۔ عرب صرف نقالی کے طور پر انہیں مناتے تھے۔ ➋ ”دو اچھے دن“ کیونکہ ان کا تعلق نہ تو موسم کی خوش گواری سے ہے، نہ کسی بادشاہ کی تاجپوشی سے، بلکہ ان کا تعلق دو عظیم عبادات کی ادائیگی سے ہے، لہٰذا ان میں بجائے لہوولعب کے عبادت، تشکر اور دعا کی حکمرانی ہو گی۔ باقی رہی خوشی تو یہ ایک ذہنی چیز ہے۔ ایک کھلنڈرا شخص جس طرح کھیل کود میں خوش ہوتا ہے، مومن اس طرح بلکہ اس سے بڑھ کر عبادت میں لذت محسوس کرتا ہے، پھر لہوولعب کی خوشی تو صرف امراء کے ساتھ خاص ہے مگر عبادت کی خوشی میں امیرغریب سب شریک ہو سکتے ہیں۔ عبادات کی ادائیگی کے بعد مناسب کھیل کود میں بھی کوئی حرج نہیں، جیسے بچیوں کا دف بجانا اور حبشیوں کا جنگی کھیل کھیلنا احادیث سے ثابت ہے۔ مگر ایسی خوشی جس کی بنیاد فخروغرور اور دولت کی نمائش و اسراف پر ہو ایک فطری دین کے سراسر خلاف ہے۔ ➌ ”عید“ عود سے ہے، یعنی بار بار پلٹ کے آنے والی چیز، ظاہر ہے عید بار بار آتی ہے، نیز ہر آدمی ان سے بار بار لطف اندوز ہونے کی خواہش رکھتا ہے اور ایک دوسرے کو ”کئی عیدوں“ کی دعا بھی دی جاتی ہے۔ ➍ اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوا کہ مسلمانوں کی صرف دو ہی عیدیں ہیں، تیسری کوئی عید نہیں، اس لیے ”عیدمیلاد“ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، یہ بدعت اور خانہ ساز ہے۔ اس کے جواز کے لیے جو ”دلائل“ دیے جاتے ہیں، ان کی حقیقت جاننے کے لیے ملاحظہ ہو، حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کی تالیف ”جشن عیدمیلاد اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ۔“
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1557
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1134
´عیدین کی نماز کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) ان کے لیے (سال میں) دو دن ہیں جن میں وہ کھیلتے کودتے ہیں تو آپ نے پوچھا: ”یہ دو دن کیسے ہیں؟“، تو ان لوگوں نے کہا: جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں میں کھیلتے کودتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیئے ہیں: ایک عید الاضحی کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن۔“[سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1134]
1134۔ اردو حاشیہ: اسلام نے جاہلیت کے تمام شعائر کو حق کے ساتھ بدل دیا ہے، تو مسلمان کو اسی حق کے ساتھ تمسک کرنا چاہیے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شرعی عیدوں کی تعداد صرف دو ہے باقی سب خود ساختہ ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1134
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 398
´نماز عیدین کا بیان` سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے لیے دو روز کھیل کود کے لیے مقرر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دو دنوں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن عنایت فرما دیے ہیں۔ ایک عید الاضحی کا اور دوسرا عید الفطر کا دن۔“ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند صحیح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 398»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب صلاة العيدين، حديث:1134، والنسائي، صلاة العيدين، حديث:1557، وحميد صرح بالسماع عند أحمد:3 /250.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عیدین کے روز کھیلنا کودنا اور اظہار مسرت و فرحت کرنا جائز ہے بشرطیکہ شریعت کے منافی نہ ہو‘ البتہ مشرکوں اور کافروں کی عیدوں پر خوشی اور مسرت و انبساط کا اظہار کرنا مکروہ ہے یا بقول بعض حرام ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 398