(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا حماد، عن يونس، عن الحسن، عن ابي بكرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله تعالى لا ينكسفان لموت احد ولا لحياته، ولكن الله عز وجل يخوف بهما عباده". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ تَعَالَى لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُخَوِّفُ بِهِمَا عِبَادَهُ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں کو کسی کے مرنے اور کسی کے پیدا ہونے سے گرہن نہیں لگتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1460
1460۔ اردو حاشیہ: ➊ ”دو نشانیاں“ یعنی بذات خود سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں۔ جن سے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا پتہ چلتا ہے۔ یا انہیں گرہن لگنا اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ جب یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے قبضہ و قدرت اور تصرف میں ہیں تو کسی کی موت اور پیدائش ان میں کیا اثر کر سکتی ہے؟ ➋ اس دور کے لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ کوئی بڑا شخص فوت یا پیدا ہو تو سورج یا چاند کو گرہن لگت ہے۔ مذکورہ گرہن نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر لگا تھا۔ لوگوں نے اسے ان کی وفات سے متعلق کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تردید فرمائی۔ (صحیح البخاري، الکسوف، حدیث: 1043، و صحیح مسلم، الکسوف، حدیث: 915) ➌ ماہرین فلکیات کے نزدیک چاند کی روشنی اپنی نہیں بلکہ سورج کی روشنی اس پر پڑنے سے یہ روشن نظر آتا ہے۔ جب سورج کی روشنی اس پر نہیں پڑتی تو یہ نظر نہیں آتا، لہٰذا جب زمین سورج اور چاند کے درمیان میں آ جائے تو زمین کی رکا وٹ کی وجہ سے چاند پر روشنی نہیں پڑتی۔ اسے چاند گرہن کہتے ہیں۔ اور یہ قمری مہینے کی تیرہ یا چودہ تاریخ کو ہو سکتا ہے، آگے پیچھے نہیں۔ اور جب زمین اور سورج کے درمیان چاند آ جائے تو سورج کے جتنے حصے کے سامنے چاند آ جائے گا، وہ زمین پر نظر نہیں آئے گا۔ اسے سورج گرہن کہتے ہیں اور یہ قمری مہینے کے آخری ایک دو دنوں میں ہو سکتا ہے، آگے پیچھے نہیں۔ سورج اور چاند کا گہنا زمین اور چاند کی رفتار کے حساب سے ہے، لہٰذا وقت سے پہلے ان کا ٹھیک ٹھیک حساب لگا کر بتایا جا سکتا ہے۔ ➍ ”ڈراتا ہے“ ویسے سورج کا غروب ہونا اور مہینے کے شروع اور آخر میں پورے چاند کا نظر نہ آنا بھی گرہن کے مثل ہی ہے مگر چونکہ یہ روز مرہ ہیں، اس لیے ان پر کوئی حیرت یا اچنبھا نہیں ہوتا مگر گرہن کبھی کبھار ہوتا ہے، اس لیے اس پر حیرت ہوتی ہے اور انسان خوف زدہ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے نصیحت حاصل کرنے کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔ اور ایسے موقع پر حکم بھی یہی ہے کہ توبہ و استغفار اور اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1460
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1503
´گرہن لگنے پر دعا مانگنے کا حکم۔` ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ سورج گرہن لگ گیا، تو آپ جلدی سے اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد کی طرف بڑھے، تو لوگ بھی آپ کے ساتھ ہو لیے، آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اسی طرح جیسے لوگ پڑھتے ہیں، پھر جب سورج صاف ہو گیا تو آپ نے ہمیں خطبہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اور ان دونوں کو کسی کے مرنے سے گرہن نہیں لگتا، تو جب تم ان دونوں میں سے کسی کو گرہن لگا دیکھو تو نماز پڑھو، اور دعا کرو یہاں تک کہ جو تمہیں لاحق ہوا ہے چھٹ جائے۔“[سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1503]
1503۔ اردو حاشیہ: دعا نمازکسوف کے اندر بھی ہو سکتی ہے، آگے پیچھے بھی، انفرادی بھی اور اجتماعی بھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1503
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1063
1063. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں سورج گہن ہوا تو آپ اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے یہاں تک کہ مسجد میں پہنچ گئے۔ لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ نے انہیں دو رکعتیں پڑھائیں۔ جب سورج روشن ہو گیا تو آپ نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی (عظمت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ کسی کے مرنے کی بنا پر بےنور نہیں ہوتے۔ جب ایسا ہو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو حتی کہ گرہن ختم ہو جائے۔“ چونکہ نبی ﷺ کے لخت جگر سیدنا ابراہیم ؓ کا انتقال ہوا تھا جس کی بنا پر لوگوں نے چہ میگوئیاں کرنا شروع کر دی تھیں، اس لیے آپ نے اس کی وضاحت فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1063]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں صاف چاند گرہن کا ذکر موجود ہے اور یہی مقصد باب ہے
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1063
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1048
1048. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی آیات میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کی موت کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔“ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں: عبدالوارث، شعبہ، خالد بن عبداللہ اور حماد بن سلمہ نے یونس سے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے ”ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔“ اشعث نے حسن سے مذکورہ الفاظ بیان نہ کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔ موسیٰ نے مبارک کے واسطے سے مذکورہ الفاظ بیان کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔ وہ (مبارک) حسن بصری سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا: مجھے ابوبکرہ نے نبی ﷺ سے بیان کیا: آپ نے فرمایا: ”ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1048]
حدیث حاشیہ: تشریح: اس کو خود امام بخاری ؒ نے آگے چل کر وصل کیا گو کسوف یا خسوف زمین یا چاند کے حائل ہونے سے ہو جس میں اب کچھ شک نہیں رہا۔ یہاں تک کہ منجمین اور اہل ہیئت خسوف اور کسوف کا ٹھیک وقت اور یہ کہ وہ کس ملک میں کتنا ہوگا پہلے ہی بتا دیتے ہیں اور تجربہ سے وہ بالکل ٹھیک نکلتا ہے، اس میں سرموفرق نہیں ہوتا مگر اس سے حدیث کے مطلب میں کوئی خلل نہیں آیا کیونکہ خدا وند کریم اپنی قدرت اور طاقت دکھلاتا ہے کہ چاند اور سورج کیسے بڑے اور روشن اجرام کو وہ دم بھر میں تاریک کر دیتا ہے۔ اس کی عظمت اورطاقت اور ہیئت سے بندوں کو ہر دم تھرانا چاہیے اور جس نے چاند اور سورج گرہن کے عادی اور حسابی ہونے کا انکار کیا ہے، وہ عقلاءکے نزدیک ہنسی کے قابل ہے۔ (مولانا وحید الزماں مرحوم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1048
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1048
1048. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی آیات میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کی موت کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔“ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں: عبدالوارث، شعبہ، خالد بن عبداللہ اور حماد بن سلمہ نے یونس سے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے ”ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔“ اشعث نے حسن سے مذکورہ الفاظ بیان نہ کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔ موسیٰ نے مبارک کے واسطے سے مذکورہ الفاظ بیان کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔ وہ (مبارک) حسن بصری سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا: مجھے ابوبکرہ نے نبی ﷺ سے بیان کیا: آپ نے فرمایا: ”ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1048]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کی اہمیت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ شمس و قمر کو بے نور کر کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے حضور توبہ و استغفار کا نذرانہ پیش کریں، اسے کھیل اور تماشا تصور نہ کریں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ﴿٥٩﴾ )(بني إسرائیل58: 17) ”ہم تو اپنی نشانیاں اس لیے بھیجتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے بندوں کو ڈرایا جائے۔ “ لہذا بندوں کو چاہیے کہ ایسے حالات میں نماز کا اہتمام کریں، صدقہ و خیرات کریں اور اللہ کے حضور ڈرتے ہوئے توبہ و استغفار کریں۔ (2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں کچھ متابعات ذکر فرمائی ہیں کہ یونس سے ان کے کچھ شاگردوں نے حدیث کے آخری الفاظ بیان نہیں کیے۔ ان میں ایک عبدالوارث ہیں۔ ان کی روایت کو امام بخاری نے خود (نمبر: 1063 کے تحت) بیان کیا ہے۔ اسی طرح کسوف القمر کے باب میں (نمبر: 1062 کے تحت) شعبہ کی روایت کو ذکر کیا ہے جس میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ اور خالد بن عبداللہ کی روایت (نمبر: 1040 کے تحت) پہلے گزر چکی ہے۔ حماد بن سلمہ کی روایت کو امام طبرانی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 692/2) اسی طرح اشعث بن عبدالملک نے حسن بصری سے اس روایت کو نقل کیا ہے، اس میں بھی حدیث کے آخری الفاظ نہیں ہیں۔ اس روایت کو امام نسائی اور ابن حبان نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (سنن النسائي، الکسوف، حدیث: 1493)(3) موجودہ سائنس نے اس حد تک ترقی کر لی ہے کہ اس کے ذریعے سے چاند اور سورج کے گرہن کی قبل از وقت پیش گوئی کر دی جاتی ہے کہ فلاں ملک میں فلاں وقت سورج یا چاند گرہن ہو گا اور یہ گرہن کلی یا جزوی ہو گا اور اتنا عرصہ قائم رہے گا۔ تجربہ کے اعتبار سے وہ پیش گوئی بالکل صحیح ہوتی ہے، اس میں سرمو فرق نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود حدیث کے مطلب میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا مظاہرہ کرتا ہے کہ سورج اور چاند جیسے بڑے بڑے اجرام کو دم بھر میں تاریک کر دیتا ہے، لہذا اس کی عظمت و کبریائی کا اعتراف اور اس کی طاقت و ہیبت سے بندوں کو ہمہ وقت ڈرنا چاہیے۔ (فتح الباري: 693/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1048
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1063
1063. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں سورج گہن ہوا تو آپ اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے یہاں تک کہ مسجد میں پہنچ گئے۔ لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ نے انہیں دو رکعتیں پڑھائیں۔ جب سورج روشن ہو گیا تو آپ نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی (عظمت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ کسی کے مرنے کی بنا پر بےنور نہیں ہوتے۔ جب ایسا ہو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو حتی کہ گرہن ختم ہو جائے۔“ چونکہ نبی ﷺ کے لخت جگر سیدنا ابراہیم ؓ کا انتقال ہوا تھا جس کی بنا پر لوگوں نے چہ میگوئیاں کرنا شروع کر دی تھیں، اس لیے آپ نے اس کی وضاحت فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1063]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے حضرت ابوبکرہ ؓ کی حدیث کو پہلے اختصار پھر تفصیل سے بیان کیا ہے جس میں وضاحت ہے کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ جب انہیں گرہن لگے تو نماز پڑھو۔ اس سے امام بخاری ؒ نے خسوف قمر کے موقع پر نماز کو ثابت کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ سورج اور چاند سے کسی کو بھی گرہن لگ جائے تو نماز پڑھو۔ (2) بعض حضرات کا خیال ہے کہ رات کے وقت لوگوں کو آنے جانے میں مشقت ہوتی ہے، اس لیے چاند گرہن کے موقع پر نماز پڑھنا مشروع نہیں، لیکن ان احادیث کی روشنی میں مذکورہ موقف محل نظر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1063