(مرفوع) اخبرنا محمود بن غيلان، قال: حدثنا وكيع، قال: حدثنا سفيان، عن حصين، ان بشر بن مروان رفع يديه يوم الجمعة على المنبر فسبه عمارة بن رويبة الثقفي، وقال:" ما زاد رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذا، واشار بإصبعه السبابة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قال: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُصَيْنٍ، أَنَّ بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ رَفَعَ يَدَيْهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ فَسَبَّهُ عُمَارَةُ بْنُ رُوَيْبَةَ الثَّقَفِيُّ، وَقال:" مَا زَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ".
حصین سے روایت ہے کہ بشر بن مروان نے جمعہ کے دن منبر پر (خطبہ دیتے ہوئے) اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، تو اس پر عمارہ بن رویبہ ثقفی رضی اللہ عنہ نے انہیں برا بھلا کہا، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زیادہ نہیں کیا، اور انہوں نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1413
1413۔ اردو حاشیہ: ➊ جمعے کا خطبہ عبادت ہے، اس میں سنجیدگی ضروری ہے دونوں ہاتھوں کو اٹھانا سنیجدگی کے خلاف ہے، تقریر میں ایک ہاتھ یا انگلی سے اشارہ کافی ہے۔ بعض نے اس سے دوران خطبہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا مراد لیا ہے، حالانکہ بعض روایات میں خطبۂ جمعہ کے دوران میں بارش کی دعا کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اٹھا کر اور آپ کے ساتھ سامعین کا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا منقول ہے۔ [صحیح البخاري، الإستسقاء، حدیث: 1029]، ہاں یہ کہا: جا سکتا ہے کہ معمول نہ بنایا جائے۔ کبھی کبھار اہم موقع پر ہاتھ اٹھا لیے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ ➋ خلاف سنت کام کرنے والے کو روکنا چاہیے اگرچہ وہ بڑی وجاہت والا اور چودھری یا وڈیرا آدمی ہو۔ ایک مسلمان کے اوصاف میں سے ہے کہ وہ اللہ کے احکام کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہیں ڈرتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1413