عبداللہ بن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منبر کے زینے سے فرمایا: ”لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آ جائیں، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا ۱؎ اور وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: گویا مسلسل جمعہ کا چھوڑنا ایسا خطرناک فعل ہے جس سے دلوں پر مہر لگ سکتی ہے جس کے بعد انسان کے لیے اخروی فلاح و نجات کی امید ختم ہو جاتی ہے۔ ۲؎: ”غافلوں میں سے ہو جائیں“ کا مطلب ہے کہ اللہ کے ذکر اور اس کے احکام سے بالکل بے پرواہ ہو جائیں گے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1371
1371۔ اردو حاشیہ: جو شخص جمعے جیسی اہم عبادت کو چھوڑتا ہے اور بار بار چھوڑتا ہے، وہ دوسری عبادات کو بھی اہمیت نہ دے گا اور ایک ایک کر کے دیگر عبادات بھی اس سے چھوٹ جائیں گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ شخص عملاً منافق بن جائے گا اور اس کے دل پر زنگ لگ جائے گا جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مغلوب ہو جائے گی۔ مہر لگنے سے مراد بھی یہی کچھ ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1371
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث794
´جماعت سے پیچھے رہنے پر سخت وعید کا بیان۔` عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم خبر دیتے ہیں کہ ان دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: ”لوگ نماز باجماعت چھوڑنے سے ضرور باز آ جائیں، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، پھر ان کا شمار غافلوں میں ہونے لگے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 794]
اردو حاشہ: (1) بعض افراد کی غلطی کو سب کے سامنے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے لوگ ان کی غلطی کو اختیار نہ کریں اور سب لوگ متنبہ ہوجائیں۔
(2) کسی کا نام لیے بغیر غلطی پر تنبیہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور ان کی عزت بھی محفوط رہے۔
(3) بعض گناہوں کی وجہ سے دلوں پر مہر لگ سکتی ہے جس کے نتیجے میں آئندہ نیکیوں کی توفیق سلب ہوسکتی ہے۔
(4) نماز باجماعت کا ترک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا دنیا ہی میں دل پر مہر لگ جانے کی صورت میں مل سکتی ہے۔
(5) غفلت سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اپنے فائدے کا احساس اور شوق باقی نہ رہےاور اپنے نقصان کا احساس اور اس سے خوف باقی نہ رہے۔ یہ ایک بہت بڑی روحانی بیماری ہے جس کی وجہ سے خطرہ ہے کہ انسان نیکی اور بدی کا شعور ہی کھو بیٹھےاور آخر کار جہنم میں جا پہنچے۔ أعاذنا الله من ذلك
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 794