(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا حاتم بن وردان، قال: حدثنا برد بن سنان ابو العلاء، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها , قالت:" استفتحت الباب ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي تطوعا والباب على القبلة , فمشى عن يمينه او عن يساره ففتح الباب، ثم رجع إلى مصلاه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بُرْدُ بْنُ سِنَانٍ أَبُو الْعَلَاءِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ:" اسْتَفْتَحْتُ الْبَابَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي تَطَوُّعًا وَالْبَابُ عَلَى الْقِبْلَةِ , فَمَشَى عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ يَسَارِهِ فَفَتَحَ الْبَابَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مُصَلَّاهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دروازہ کھلوانا چاہا، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفل نماز پڑھ رہے تھے، دروازہ قبلہ کی طرف پڑ رہا تھا، آپ اپنے دائیں جانب یا بائیں جانب (چند قدم) چلے، اور آپ نے دروازہ کھولا، پھر آپ اپنی جگہ پر واپس لوٹ آئے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1207
1207۔ اردو حاشیہ: ➊ نفل نماز میں کچھ رعایت ہوتی ہے۔ ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ قبلے سے تبدیل نہیں ہوا۔ چند قدم اٹھانے کی اجازت ہے۔ فرض نماز میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا پیچھے آنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آگے چلنا اس کی دلیل ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ رخصت ضرورت کے وقت ہی ہے۔ بلاوجہ چلنا نماز ضائع کر دے گا۔ ➋ محقق کتاب نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے اور انہی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن أبي داود (مفصل) للألباني: 4/77، حدیث: 855، والموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: 42/320، 321) ➌ جب گھر میں اور کوئی نہ ہو اور دروازہ قبلے کی جانب ہو تو نماز پڑھنے والا دروازہ کھول سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1207