(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا معاذ بن هشام، قال: حدثني ابي، عن قتادة، عن نصر بن عاصم، عن مالك بن الحويرث، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم" كان إذا دخل في الصلاة رفع يديه وإذا ركع فعل مثل ذلك وإذا رفع راسه من الركوع فعل مثل ذلك وإذا رفع راسه من السجود فعل مثل ذلك كله يعني رفع يديه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قال: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قال: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ كُلَّهُ يَعْنِي رَفْعَ يَدَيْهِ".
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع کرتے تو بھی ایسا ہی کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے، اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے یعنی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: دیکھئیے حاشیہ حدیث رقم: ۱۰۸۶۔
تخریج الحدیث: «انظر الأرقام: 1086، 1088 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، انظر الحديث السابق (1086) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 329
ابوسعيد سلفي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 824
´رکعت سے اٹھتے وقت زمین کا کس طرح سہارا لے` «. . . حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: " جَاءَنَا مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ فَصَلَّى بِنَا فِي مَسْجِدِنَا هَذَا، فَقَالَ: إِنِّي لَأُصَلِّي بِكُمْ وَمَا أُرِيدُ الصَّلَاةَ، وَلَكِنْ أُرِيدُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، قَالَ أَيُّوبُ: فَقُلْتُ لِأَبِي قِلَابَةَ: وَكَيْفَ كَانَتْ صَلَاتُهُ؟ قَالَ: مِثْلَ صَلَاةِ شَيْخِنَا هَذَا يَعْنِي عَمْرَو بْنَ سَلِمَةَ، قَالَ أَيُّوبُ: وَكَانَ ذَلِكَ الشَّيْخُ يُتِمُّ التَّكْبِيرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ عَنِ السَّجْدَةِ الثَّانِيَةِ جَلَسَ وَاعْتَمَدَ عَلَى الْأَرْضِ ثُمَّ قَامَ . . .» ”. . . ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہوں نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے ابوقلابہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں تشریف لائے اور آپ نے ہماری اس مسجد میں نماز پڑھائی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نماز پڑھا رہا ہوں لیکن میری نیت کسی فرض کی ادائیگی نہیں ہے بلکہ میں صرف تم کو یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ نبی کریم کس طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔ ایوب سختیانی نے بیان کیا کہ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا کہ مالک رضی اللہ عنہ کس طرح نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ کی طرح۔ ایوب نے بیان کیا کہ شیخ تمام تکبیرات کہتے تھے اور جب دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو تھوڑی دیر بیٹھتے اور زمین کا سہارا لے کر پھر اٹھتے . . .“[صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/بَابُ كَيْفَ يَعْتَمِدُ عَلَى الأَرْضِ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَةِ:: 824]
تشریح: ◈ امام محمد بن ادریس، شافعی رحمہ اللہ (150-204ھ) فرماتے ہیں: ہم اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں اور جو شخص نماز میں سجدے یا تشہد سے (اگلی رکعت کے لیے) اٹھے، اسے حکم دیتے ہیں کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیکے۔ یہ عمل عاجزی کے قریب تر ہے، نمازی کے لیے مفید بھی ہے اور گرنے سے بچنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ اٹھنے کی کوئی بھی صورت میرے نزدیک مکروہ ہے۔ [كتاب الام: 101/1]
◈ اس حدیث پر سید الفقہاء، امیر المؤمنین فی الحدیث، امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ (194 - 256 ھ) نے یہ باب قائم فرمایا ہے: «بَابُ: كَيْفَ يَعْتَمِدُ عَلَى الأَرْضِ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَةِ:» ”اس بات کا بیان کہ نمازی (پہلی اور تیسری) رکعت سے اٹھتے ہوئے زمین کا سہارا کیسے لے گا۔“
◈ شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (773-852ھ) امام بخاری رحمہ للہ کی مراد واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: «والغرض منه هنا ذكر الاعتماد على الارض عند القيام من السجود او الجلوس» ”امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ سجدے اور تشہد سے اٹھتے ہوئے ہاتھوں کو زمین پر ٹیکنا چاہیے۔“[فتح الباري شرح صحيح البخاري: 303/2]
دلیل نمبر: ➋ ازرق بن قیس تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو نماز میں اٹھتے اور اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتے ہوئے دیکھا۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 394/1وسنده صحيح]
دلیل نمبر: ➌ خالد بن مہران حذا بیان کرتے ہیں: ”میں نے ابوقلابہ اور حسن بصری رحمہ اللہ کو دیکھا کہ وہ نماز میں (اگلی رکعت کے لیے اٹھتے وقت) اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتے تھے۔“[مصنف ابن ابي شيبه: 395/1 وسنده صحيح ان صح سماع عبادة بن العوام من خالد]
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 737
´رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین` «. . . وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ . . .» ”. . . پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت بھی رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے . . .“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 744]
فقہ الحدیث: راوی حدیث کا عمل: ◈ ابوقلابہ تابعی رحمہ اللہ سے روایت ہے: «أنه راى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه، وإذا أراد أن يركع رفع يديه، وإذا رفع راسه من الركوع رفع يديه، وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا .» ”انہوں نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ نماز پڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے، جب رکوع کو جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔“[صحيح بخاري: 102/1، ح: 737، صحيح مسلم: 168/1، ح: 391] ↰ صحابی رسول سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے حکم کے مطابق رفع الیدین کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل مبارک تھا، ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تاوفات رفع الیدین کرتے رہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 745
´جنہوں نے دو رکعت کے بعد اٹھتے وقت رفع یدین کرنے کا ذکر کیا ہے ان کا بیان۔` مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے جب آپ تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہتے جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کانوں کی لو تک لے جاتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 745]
745۔ اردو حاشیہ: «فروع اذنيه» کی شرح میں دو قول ہیں۔ ایک تو یہی کہ کان کے نیچے جو نرم گوشت والا حصہ ہوتا ہے اسے «شحمة الاذن» بھی کہتے ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ کان کی اوپر والی چوٹی کو «فرع الاذن» کہا جاتا ہے اور لغت اسی کی تائید کرتی ہے۔ امام شافعی اللہ نے ان مختلف روایات کو یوں جمع کیا ہے کہ ہتھیلیاں کندھوں کے برابر ہوں، اس طرح کہ انگوٹھے کانوں کی لوؤوں کے برابر اور انگلیاں اوپر کے حصے کے برابر آ جائیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 745
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 881
´نماز دونوں ہاتھ کانوں کے بالمقابل اٹھانے کا بیان۔` مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو جس وقت آپ اللہ اکبر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب رکوع کرنے اور رکوع سے اپنا سر اٹھانے کا ارادہ کرتے (تب بھی اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل اٹھاتے)۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 881]
881 ۔ اردو حاشیہ: ➊ معلوم ہوا کہ رفع الیدین رکوع میں جانے سے پہلے قیام کی حالت میں کرنا چاہیے نہ کہ جاتے ہوئے۔ اسی طرح جب سر اٹھا کر سیدھا کھڑا ہو جائے تو پھر رفع الیدین کرنا چاہیے، نہ کہ سراٹھاتے ہوئے۔ گویا رفع الیدین قیام کی حالت ہی میں ہونا چاہیے۔ ➋ حضرت وائل بن حجر اور مالک بن حویرث رضی اللہ عنہم دونوں صحابی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کے آخر میں مسلمان ہوئے ہیں، دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور دونوں ہی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع الیدین کرنے کی احادیث بیان کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رفع الیدین کے منسوخ ہونے کا دعویٰ درست نہیں، یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 881
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1025
´رکوع کے لیے دونوں ہاتھ کانوں کی لو کے بالمقابل اٹھانے کا بیان۔` مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ اللہ اکبر کہتے، اور جب رکوع کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے، تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ آپ کی کانوں کی لو تک پہنچ جاتے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1025]
1025۔ اردو حاشیہ: حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ماہ رجب المرجب سن 9ھ میں مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ رفع الیدین کے ایک اور راوی صحابیٔ رسول حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ شوال المکرم 10ھ میں حاضر ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر عمر تک رفع الیدین فرماتے رہے۔ اس حدیث سے احناف کے دعوائے نسخ کی تردید ہوتی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ احناف رکوع کو جاتے اور اٹھتے وقت کے رفع الیدین کو تو نہیں مانتے جو بہت قوی اسناد سے ثابت ہیں مگر قنوت وتر اور تکبیرات عیدین کے رفع الیدین کے قائل ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ اگر رفع الیدین منسوخ ہے تو یہ دو کیوں نہ منسوخ ہوئے؟ آخر تفریق کی کوئی وجہ؟ جو اعتراضات رکوع کے رفع الیدین پر کیے جاتے ہیں، کیا وہ قنوت کے رفع الیدین پروارد نہیں ہوتے؟ رفع الیدین منسوخ بھی ہے، نماز کے سکون کے منافی بھی ہے مگر شروع نماز میں دوران نماز قنوت وتر میں اور عیدین کی تکبیرات میں بار بار کیے بھی جا رہے ہیں؟ صرف رکوع کا رفع الیدین ہی اتنا قبیح ہے کہ اس پر اعتراضات بھی ہیں اور وہ منع بھی ہے؟ کیا صرف رکوع کے رفع الیدین کے نسخ کی کوئی معقول وجہ ہے؟ یا تو سب کو ختم کر دیا انہیں بھی مانو۔ یاأولی الالباب! (مزید بحث کے لیے دیکھیے فوائد حدیث نمبر 877 و مابعد)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1025
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 824
824. حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ حضرت مالک بن حویرث ؓ ہمارے پاس آئے اور ہماری اس مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی، نیز فرمایا کہ میں تمہیں نماز پڑھاتا ہوں، میرا نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں لیکن میں تمہیں دکھانا چاہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے کس طرح دیکھا؟ (راوی حدیث) ایوب کہتے ہیں کہ میں نے ابوقلابہ سے کہا: تو پھر حضرت مالک بن حویرث ؓ کی نماز کیسی تھی؟ انہوں نے فرمایا: ہمارے اس شیخ، یعنی عمرو بن سلمہ کی نماز کی طرح۔ ایوب کہتے ہیں کہ وہ شیخ پوری طرح "اللہ أکبر" کہتے اور جب اپنا سر دوسرے سجدے سے اٹھاتے تو بیٹھ جاتے، زمین پر ٹیک لگا کر پھر اٹھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:824]
حدیث حاشیہ: یعنی جلسہ استراحت کر کے پھر دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر اٹھتے جیسے بوڑھا شخص دونوں ہاتھوں پر آٹا گوندھنے میں ٹیکا دیتا ہے حنفیہ نے جو اس کے خلاف ترمذی کی حدیث سے دلیل لی کہ آں حضرت اپنے پاؤں کی انگلیوں پر کھڑے ہوتے تھے تو یہ حدیث ضعیف ہے علاوہ اس کے اس سے یہ نکلتا ہے کہ کبھی آپ ﷺ نے جلسہ استراحت کیا اور کبھی نہیں کیا اہل حدیث کا یہی مذہب ہے وہ جلسہ استراحت کو مستحب کہتے ہیں اور اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ضعف یا علالت کی وجہ سے ایساکیا اور یہ کہنا کہ نماز کا موضوع استراحت نہیں ہے قیاس ہے بمقابلہ نص اور وہ فاسد ہے۔ (مولانا وحید الزماں)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 824
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:737
737. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو اللہ أکبر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع کرنا چاہتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور وہ بیان کرتے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:737]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے بے ہنگم قیل وقال میں وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ اپنے موقف کے اثبات کے لیے احادیث کا ذکر کرتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کے عنوانات کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ٹھوس ہوتے ہیں۔ آپ نے اپنے اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں رفع الیدین سے متعلق دو احادیث کا حوالہ دیا ہے۔ ہم بھی ان کا طریقہ اپناتے ہوئے اس سلسلے میں مزید چند احادیث کا حوالہ دیتے ہیں تاکہ قاری کو اس سنت پر عمل کرنے میں سہولت رہے: ٭حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر ؓ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے او جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور کہتے تھے رسول اللہ ﷺ بھی نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي، الصلاة: 2/73) ٭ سیدنا عمر فاروق ؓ نے ایک مرتبہ لوگوں کو نماز کا طریقہ بتانے کا ارادہ کیا تو قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو گئے اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا، پھر اللہ أکبر کہا۔ اس کے بعد رکوع کیا اور اسی طرح ہاتھوں کو بلند کیا اور رکوع سے سر اٹھا کر بھی رفع الیدین کیا۔ (الخلافیات للبیهقي بحوالہ نصب الرایة: 2/415) ٭حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے شروع میں، رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اور دورکعت پڑھ کر کھڑا ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 744) ٭حضرت ابو حمید ساعدی ؓ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع میں جاتے، جب رکوع سے سر اٹھاتے اور جب دورکعت پڑھ کر کھڑے ہوتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا تم سچ بیان کرتے ہو، واقعی رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 304) بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس مجمع میں حضرت ابو قتادہ، سہل بن سعد ساعدی ؓ اور ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ (صحیح ابن خزیمة: 298/2) امام محمد بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ حدیث سنی اور رفع الیدین نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے۔ (صحیح ابن خزیمة: 2/298) ٭ حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو اللہ أکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر اپنے ہاتھ کپڑے میں ڈھانپ لیتے اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے۔ جب رکوع کرنے لگتے تو ہاتھ کپڑوں سے باہر نکالتے، اللہ أکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے۔ جب رکوع سے اٹھتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور رفع الیدین کرتے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 896(401) واضح رہے کہ حضرت وائل بن حجر ؓ یمن کے رہنے والے تھے، 9 اور 10 ہجری میں دو دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ 10ہجری تک رفع الیدین کرتے تھے۔ 11 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی، لہٰذا آخر عمر تک رفع الیدین کرنا ثابت ہوا۔ ٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ایک دن لوگوں سے فرمایا: کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ بتاؤں؟اس کے بعد انھوں نے نماز پڑھی۔ جب تکبیر تحریمہ کہی تو رفع الیدین کیا، پھر جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور تکبیر کہی، پھر سمع الله لمن حمده کہہ کر دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے، اس کے بعد فرمایا کہ اسی طرح کیا کرو۔ (سنن الدار قطني: 1/291، حدیث: 1292، طبع دارالمعرفة، بیروت) ٭حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شروع نماز میں، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھایا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 738) واضح رہے کہ بعض روایات کے مطابق حضرت ابو ہریرہ ؓ حضرت ابو حمیدی ساعدی ؓ کی رفع الیدین کے متعلق تصدیق کرنے والوں میں ہیں جبکہ انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں اسے بیان کیا تھا۔ (فتح الباري: 397/2) ٭ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 868)(2) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین کو بیان کرنے والے مندرجہ ذیل صحابہ ہیں: ٭ حضرت عبداللہ بن عمر٭حضرت مالک بن حویرث٭حضرت ابو بکر صدیق٭حضرت عمر فاروق٭حضرت علی٭حضرت ابو حمید ساعدی٭حضرت وائل بن حجر٭حضرت ابو موسیٰ اشعری٭حضرت ابو ہریرہ٭حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم۔ ان کے علاوہ حضرت سہل بن سعدساعدی٭ابو اسید ساعدی اور محمد بن مسلمہ٭حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہم حضرت ابو حمید ساعدی کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہیں۔ حدیث متواتر کی تعریف یہ ہے کہ جسے کم از کم دس راوی بیان کریں۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین کی احادیث متواتر ہیں۔ اس بنا پر رفع الیدین کا اثبات قطعئ الثبوت ہے اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں، نیز الکتانی، ابن جوزی، حافظ ابن حجر، ابن حزم، سیوطی، العراقی، سخاوی اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ وغیرہ ہم نے رفع الیدین کے متواتر ہونے کی تصریح کی ہے۔ والله المستعان۔ امام بخاری ؒ نے اس سنت متواترہ کو ثابت کرنے کے لیے ایک مستقل رسالہ جزء رفع الیدین بھی لکھا ہے جو استاذی المکرم شاہ بدیع الدین راشدی ؒ کی تحقیق وتخریج سے مطبوع ومتداول ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 737
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:824
824. حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ حضرت مالک بن حویرث ؓ ہمارے پاس آئے اور ہماری اس مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی، نیز فرمایا کہ میں تمہیں نماز پڑھاتا ہوں، میرا نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں لیکن میں تمہیں دکھانا چاہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے کس طرح دیکھا؟ (راوی حدیث) ایوب کہتے ہیں کہ میں نے ابوقلابہ سے کہا: تو پھر حضرت مالک بن حویرث ؓ کی نماز کیسی تھی؟ انہوں نے فرمایا: ہمارے اس شیخ، یعنی عمرو بن سلمہ کی نماز کی طرح۔ ایوب کہتے ہیں کہ وہ شیخ پوری طرح "اللہ أکبر" کہتے اور جب اپنا سر دوسرے سجدے سے اٹھاتے تو بیٹھ جاتے، زمین پر ٹیک لگا کر پھر اٹھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:824]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں ابو قلابہ کے شیخ عمرو بن سلمہ کی نماز کو رسول اللہ ﷺ کی نماز کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ ان کی نماز میں دو چیزیں بطور خاص ذکر ہوئی ہیں: ٭ اتمام تکبیر ٭اعتماد علی الارض۔ اتمام تکبیر کے دو معنی ہیں: ٭ نماز کی تمام تکبیرات کا عدد پورا کیا جائے جو چار رکعات میں بائیس تک ہے۔ ٭ اللہ أکبر کو لمبا کیا جائے جو پوری حرکت انتقال پر محیط ہو۔ اعتماد علی الارض کے بھی دو معنی ہیں: ٭ دوران سجدہ میں کہنیوں کو گھٹنوں یا رانوں پر رکھنا جیسا کہ امام ترمذی ؒ نے باب الاعتماد في السجود میں مراد لیا ہے۔ ٭ دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک دینا۔ اس مقام پر اعتماد علی الأرض کے دوسرے معنی مراد ہیں، چنانچہ شاہ ولی اللہ ؒ نے لکھا ہے کہ سجدے سے فراغت کے بعد زمین پر ہاتھوں سے ٹیک لگا کر اٹھنا امام شافعی ؒ کے نزدیک سنت ہے اور احناف نے اس کی سنیت سے انکار کیا ہے۔ سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت وہ اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگا کر اٹھنے کے بجائے سیدھے تیر کی طرح اٹھتے ہیں اور بطور استدلال یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگائے بغیر تیر کی مانند اٹھتے تھے، لیکن یہ حدیث من گھڑت اور موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں خصیب بن جحدر نامی ایک راوی کذاب ہے، (مجمع الزوائد: 135/2، حدیث: 2806) نیز یہ روایت صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک دینے کی صراحت ہے۔ (2) سوال یہ ہے کہ زمین پر ٹیک لگا کر اٹھتے وقت ہاتھوں کی کیفیت کیا ہو؟ کیا کھلے ہاتھوں اٹھنا چاہیے یا مٹھی بند کر کے کھڑے ہونا چاہیے؟ اس کے متعلق ازرق بن قیس کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ کو دیکھا کہ وہ نماز میں جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تو آٹا گوندھنے والے کی طرح مٹھی بند کر کے زمین پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے۔ میں نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (غریب الحدیث لأبي إسحاق الحربي، باب عجن: 2؍525) اگرچہ اس روایت پر ہیثم بن عمران کی وجہ سے اعتراض کیا گیا ہے لیکن امام ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ (سلسلة الأحادیث الضعیفة: 392/2) بعض معاصر اہل علم نے اس کی یہ توجیہ بھی کی ہے کہ آٹا گوندھتے وقت کبھی کھلے ہاتھ بھی استعمال ہوتے ہیں، لہذا کھلے ہاتھوں سے ٹیک لگا کر اٹھنے کی بھی گنجائش ہے، لیکن یہ توجیہ امر واقعہ کے خلاف ہے کیونکہ کھلے ہاتھوں سے آٹا نہیں گوندھا جاتا بلکہ مٹھی بند کر کے اسے گوندھا جاتا ہے۔ اس بنا پر ہماری تحقیق یہی ہے کہ ہر رکعت سے کھڑے ہوتے وقت مٹھی بند کر کے زمین پر ٹیک لگا کر کھڑے ہونا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی عذر یا اس میں دقت ہو تو کھلے ہاتھوں اٹھنے کی گنجائش ہے۔ واللہ أعلم۔ علامہ عینی ؒ نے فقہاء کے حوالے سے اس کیفیت کو بیان کیا ہے۔ (عمدة القاري: 568/4)(3) اختصار کے ساتھ کیفیت سجدہ حسب ذیل ہے: ٭ سجدے کے لیے جھکتے وقت پہلے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا جائے۔ (مسند أحمد: 2/381) ٭ سجدہ کرتے وقت درج ذیل سات اعضاء زمین پر لگنے چاہئیں: (1) پیشانی اور ناک (2- 3) دونوں ہاتھ (4- 5) دونوں پاؤں (6- 7) دونوں گھٹنے۔ (صحیح مسلم،الصلاة، حدیث: 1100(491) ٭ دوران سجدہ میں ہاتھ زمین پر جبکہ کہنیاں زمین سے اٹھی ہوئی ہوں۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1104(494) ٭ دوران سجدہ میں قدموں کی ایڑیاں ملی ہوئی ہوں۔ (المستدرک للحاکم: 1/228) ٭ سجدے میں پاؤں کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف اور قدم کھڑے ہونے چاہئیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 828) ٭ سجدے میں دونوں بازو کشادہ، ہاتھ پہلوؤں سے دور، سینہ، پیٹ اور رانیں زمین سے اونچی، پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے جدا رکھیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 963،730) ٭ بحالت سجدہ ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی ہوں۔ (المستدرك للحاکم: 244/1) نیز بوقت ضرورت کسی کپڑے پر سجدہ کرنا جائز ہے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 385) واضح رہے کہ مرد اور عورت کے لیے سجدے کا یہی طریقہ ہے جو اوپر بیان ہوا ہے، اس کے علاوہ کوئی خاص طریقہ عورت کے لیے کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 824