فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 111
111۔ اردو حاشیہ:
➊ امام نسائی رحمہ اللہ اس باب کے تحت یہ احادیث لا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وضو میں پاؤں دھونا واجب ہے کیونکہ اگر پاؤں پر مسح کا حکم ہوتا اور اسے دھونا واجب نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایڑیوں کے خشک رہ جانے پر اس قدر سخت وعید نہ سناتے۔ جب صرف ایڑیوں کے خشک رہ جانے پر اس قدر سخت وعید ہے تو پورا پاؤں نہ دھونا اور صرف مسح پر اکتفا کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے، البتہ وضو کرنے کے بعد پہنی ہوئی جرابوں اور موزوں پر مسح کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ دیکھیے: [صحيح البخاري، الوضوء، حديث: 182، و صحيح مسلم، الطهارة، حديث: 274، و جامع الترمذي، الطهارة، حديث: 99]
➋ «وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ……… الخ» بددعا بھی ہو سکتی ہے اور خبر بھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 111
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 97
´وضو میں کوئی جگہ بھی خشک نہیں رہنی چاہئیے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى قَوْمًا وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ، فَقَالَ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ، أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ . . .»
”. . . عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کو اس حال میں دیکھا کہ وضو کرنے میں ان کی ایڑیاں (پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے) خشک تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایڑیوں کو بھگونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے جہنم کی آگ سے تباہی ہے وضو پوری طرح سے کرو . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 97]
فوائد و مسائل:
معلوم ہوا کہ وضو میں کوئی جگہ بھی خشک نہیں رہنی چاہیے، ورنہ مذکورہ وعید ثابت اور لاگو ہو گی۔ ایڑیوں کا ذکر بالخصوص اس لیے آیا کہ آدمی جلدی میں ہو اور ان کا خیال نہ کرے تو یہ خشک رہ جاتی ہیں، خاص طور پر ٹخنوں کے پیچھے کی گہری جگہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 97
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 60
´علمی مسائل کے لیے اپنی آواز کو بلند کرنا`
«. . . فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 60]
� تشریح:
بلند آواز سے کوئی بات کرنا شان نبوی کے خلاف ہے کیونکہ آپ کی شان میں «ليس بصخاب» آیا ہے کہ آپ شور و غل کرنے والے نہ تھے مگر یہاں حضرت امام قدس سرہ نے یہ باب منعقد کر کے بتلا دیا کہ مسائل کے اجتہاد کے لیے آپ کبھی آواز کو بلند بھی فرما دیتے تھے۔ خطبہ کے وقت بھی آپ کی یہی عادت مبارکہ تھی جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آواز بلند ہو جایا کرتی تھی۔ ترجمہ باب اسی سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ کا مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا تھا کہ جلدی کی وجہ سے ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں، یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائیں گی۔ یہ سفر مکہ سے مدینہ کی طرف تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 60
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 96
´محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کر سکتا ہے`
«. . . فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا کہ آگ کے عذاب سے ان ایڑیوں کی (جو خشک رہ جائیں) خرابی ہے۔ یہ دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 96]
� تشریح:
ان احادیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ اگر کوئی محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کرے یا طالب علم ہی استاد سے دوبارہ یا سہ بارہ پڑھنے کو کہے تو یہ مکروہ نہیں ہے۔ تین بار سلام اس حالت میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر جائے اور اندر آنے کی اجازت طلب کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب الاستیذان میں بھی لائے ہیں، اس سے بھی یہی نکلتا ہے۔ ورنہ ہمیشہ آپ کی یہ عادت نہ تھی کہ تین بار سلام کرتے، یہ اسی صورت میں تھا کہ گھر والے پہلا سلام نہ سن پاتے تو آپ دوبارہ سلام کرتے اگر پھر بھی وہ جواب نہ دیتے تو تیسری دفعہ سلام کرتے، پھر بھی جواب نہ ملتا تو آپ واپس ہو جاتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 96
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 163
´دونوں پاؤں دھونا چاہیے اور قدموں پر مسح نہ کرنا چاہیے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: تَخَلَّفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنَّا فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقْنَا الْعَصْرَ، فَجَعَلْنَا نَتَوَضَّأُ وَنَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا . . .»
”. . . وہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ` (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر (تھوڑی دیر بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو پا لیا اور عصر کا وقت آ پہنچا تھا۔ ہم وضو کرنے لگے اور (اچھی طرح پاؤں دھونے کی بجائے جلدی میں) ہم پاؤں پر مسح کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «ويل للأعقاب من النار» ” ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے “ دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الرِّجْلَيْنِ وَلاَ يَمْسَحُ عَلَى الْقَدَمَيْنِ:: 163]
� تشریح:
اس میں روافض کا رد ہے جو قدموں پر بلا موزوں کے مسح کے قائل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث باب سے ثابت کیا ہے کہ جب موزے پہنے ہوئے نہ ہو تو قدموں کا دھونا فرض ہے جیسا کہ آیت وضو میں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پاؤں کو بھی دوسرے اعضاء کی طرح دھونا چاہئیے اور اس طرح پر کہ کہیں سے کوئی حصہ خشک نہ رہ جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 163
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 96
96. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے ایک سفر میں پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ ہمیں آ ملے جبکہ عصر کا وقت ہو چکا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے، چنانچہ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ نے بآواز بلند دو یا تین مرتبہ فرمایا: ”ایڑیوں کے لیے آگ سے خرابی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:96]
حدیث حاشیہ:
ان احادیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ اگر کوئی محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کرے یا طالب علم ہی استاد سے دوبارہ یاسہ بارہ پڑھنے کو کہے تو یہ مکروہ نہیں ہے۔
تین بار سلام اس حالت میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر جائے اور اندرآنے کی اجازت طلب کرے۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب الإستیذان میں بھی لائے ہیں، اس سے بھی یہی نکلتا ہے۔
ورنہ ہمیشہ آپ کی یہ عادت نہ تھی کہ تین بار سلام کرتے، یہ اسی صورت میں تھا کہ گھر والے پہلا سلام نہ سن پاتے توآپ دوبارہ سلام کرتے اگر پھر بھی وہ جواب نہ دیتے توتیسری دفعہ سلام کرتے، پھر بھی جواب نہ ملتا تو آپ واپس ہوجاتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 96
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 570
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف لوٹے، حتیٰ کہ جب ہم راستے میں ایک پانی پر پہنچے، تو کچھ لوگوں نے عصر کے وقت جلدی کی اور انھوں نے جلدی جلدی وضو کر لیا۔ ہم ان تک اس حال میں پہنچے کہ ان کی ایڑیاں پانی نہ چھونے کی وجہ ظاہر ہو رہی تھیں (خشک تھیں) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایڑیوں کے لیے ہلاکت ہے، وضو مکمل کیا کرو۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:570]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
عِجَالٌ:
"عَجْلَانٌ" کی جمع ہے،
جلد باز۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 570
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:60
60. حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک سفر میں نبیﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ پھر آپ ہمیں اس حالت میں ملے کہ ہم سے نماز میں دیر ہو گئی تھی اور ہم (جلدی جلدی) وضو کر رہے تھے۔ ہم اپنے پاؤں (خوب دھونے کی بجائے ان) پر مسح کی طرح تر ہاتھ پھیرنے لگے۔ یہ دیکھ کر آپ نے بآواز بلند دو یا تین مرتبہ فرمایا: ”دوزخ میں جانے والی ایڑیوں پر افسوس!“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:60]
حدیث حاشیہ:
1۔
پہلے باب میں سوال کرنے کا طریقہ تھا، اس باب میں جواب دینے کا طریقہ بتایا ہے کہ ازالہ غفلت یا کسی اورمصلحت کے پیش نظر جواب دیتے وقت اپنی آواز کو اونچا کرنا مستحسن ہے۔
احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات میں سے ایک صفت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے کہ آپ شوروغل نہ فرماتےتھے کیونکہ ضرورت سے زیادہ آواز کا بلند کرنا پیغمبرانہ وقار کے منافی اورآپ کی علمی شان کے بھی خلاف ہے۔
شاید کوئی تعلیم دیتے وقت ضرورت پڑنے پر آواز بلند کرنا قابل اعتراض خیال کرتا ہو، حدیث سے اس خیال کی تردید مقصود ہے کہ اس میں کچھ اندیشہ نہیں، البتہ تکبر یا بے پروائی کی وجہ سے رفع صوت ہو تو قابل مذمت ہے۔
ضرورت کے مواقع حسب ذیل ہیں۔
(الف)
۔
سننے والا دور ہے۔
(ب)
۔
مجمع کثیر ہے۔
(ج)
۔
مضمون کی اہمیت کا تقاضا ایساہے۔
(د)
۔
کسی طالب کو ڈانٹنے کے لیے یہ انداز اختیار کیاجاسکتا ہے۔
(ھ)
۔
حدیث میں ہے کہ جب آپ خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں، آواز بلند ہوجاتی اور آپ کاغصہ تیز ہوجاتا۔
(صحيح مسلم، الجمعة، حدیث 2005(867)
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے رمز شناس یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں احادیث لکھتے وقت بڑی محنت اٹھائی ہے، ان کی جمع و تدوین اور حسن ترتیب میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
(فتح الباري: 190/1)
3۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد لوگوں کوآگاہ کرنا تھا کہ جلدی میں وضو کرتے وقت اپنی ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں جیسا کہ عام طور پر جلدی میں پاؤں کا کچھ حصہ خشک رہ جاتاہے۔
یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائے گی، نیز "أعقاب" سے مراد صاحب اعقاب ہیں۔
یعنی وضو کرتے وقت جن کی ایڑیاں خشک رہیں گی، انھیں جہنم میں ڈالا جائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 60
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:96
96. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے ایک سفر میں پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ ہمیں آ ملے جبکہ عصر کا وقت ہو چکا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے، چنانچہ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ نے بآواز بلند دو یا تین مرتبہ فرمایا: ”ایڑیوں کے لیے آگ سے خرابی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:96]
حدیث حاشیہ:
بوقت وضو ایڑیوں کے خشک رہ جانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی اہمیت دی کہ ان کے متعلق وعید کو تین مرتبہ دہرایا اس سے بھی ثابت ہوا کہ کسی اہم بات کو کئی دفعہ دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 96
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:163
163. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے، پھر آپ نے ہم کو پا لیا جبکہ عصر کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ ہم وضو کرنے لگے اور جلدی جلدی پاؤں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ آپ نے دو یا تین مرتبہ بلند آواز سے پکار کر کہا: ”ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:163]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وضو کرتے وقت پاؤں کا وظیفہ انھیں دھونا ہے۔
ان پر مسح کرنا نہیں دلیل میں جو روایت پیش فرمائی ہے، اس میں وضاحت ہے کہ عصر کا وقت تنگ ہو رہا تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے پاؤں دھونے کے بجائے جلدی جلدی ان پر مسح کرنے لگے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خشک ایڑیوں کے متعلق وعید سنائی کہ یہ ایڑیاں جہنم میں جائیں گی اگر پاؤں کا وظیفہ مسح ہوتا تو مسح کرتے وقت کسی کے نزدیک بھی استیعاب ضروری نہیں ہے، اس لیے اس قدر سخت وعید کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وظیفہ تو ادا ہو چکا تھا لیکن چونکہ پاؤں کا وظیفہ دھونا ہے اور اس میں استیعاب (پورے پاؤں پر ہاتھ پھیرنا)
ضروری ہے لہٰذا اس کوتاہی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں وعید شدید سنائی۔
اس سے معلوم ہوا کہ خالی پاؤں کا دھونا ضروری ہے مسح کرنے سے کام نہیں چلے گا۔
یہ استدلال اس صورت میں ہے کہ (تَمسَحُ)
کے معنی حقیقی مسح کیا جائے لیکن اگر یہ معنی کیے جائیں کہ ہم اپنے ہاتھ پانی سے تر کر کے پاؤں پر پھیرنے لگے جس سے ایڑیوں کے کچھ حصے خشک رہ گئے تو بھی استدلال صحیح ہے کہ پاؤں کو اچھی طرح دھونا ہے اور اس میں استیعاب ہے یعنی ان کا کوئی حصہ بھی خشک نہ رہے۔
2۔
اس عنوان کو یہاں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ پہلے باب میں استنثار کا بیان تھا کہ ناک میں پانی پہنچانا ضروری ہے کپڑے سے صاف کر لینا کافی نہیں کیونکہ ہم لوگ احکام شریعت کے پابند ہیں اپنی طرف سے ان میں کوئی ترمیم نہیں کر سکتے لہٰذا اگر شریعت نے کسی عضو کے متعلق غسل ضروری قرار دیا ہے تو ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم یہ سوچ کر کہ مقصود تو صفائی ہے لہٰذا دھونے کے بجائے کپڑے سے صفائی کر لیں ایسا کرنا جائز نہیں۔
جس طرح خالی پاؤں کو دھونا ضروری ہے اسی طرح ناک میں پانی ڈال کر اسے اچھی طرح صاف کرنا ضروری ہے نیز ناک بدن کی اعلیٰ جانب ہے اور پاؤں بدن کی نچلی جانب ہے اس لیے ناک کے بعد قدم کا وظیفہ بتایا گیا ہے۔
3۔
اس روایت سے شیعہ حضرات کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک پاؤں کا وظیفہ غسل نہیں بلکہ مسح ہے اور وہ اس روایت کا یہ جواب دیتے ہیں کہ لوگوں کی ایڑیاں نجاست آلود تھیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دھونے کا حکم دیا لیکن ہمیں ان حضرات کی عقل و فکر پر حیرت ہوتی ہے۔
اگر ایک دو آدمیوں کی ایڑیاں نجاست آلود ہوتیں تو بات بن سکتی تھی کیا تمام حضرات کی ایڑیوں پر نجاست لگی ہوئی تھی اور انھیں اس کے دور کرنے کا خیال تک نہ آیا۔
حالانکہ نجاست کا ازالہ حدث کے ازالے سے زیادہ ضروری ہوتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پاک کرنے کا حکم نہیں فرمایا کہ تمھاری ایڑیاں نجاست آلود ہیں انھیں دھو کر پاک کرو۔
دراصل ان حضرات نے پورے دین کا ڈھانچہ از سر نو تشکیل دیا ہے اذان، اوقات نماز، طریقہ نماز، زکاۃ، الغرض ہر چیز الگ وضع کر رکھی ہے حتی کہ موجودہ قرآن کریم کے متعلق ان کے ہاں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 163