378. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر گئے تو آپ کی پنڈلی یا کندھا مجروح ہو گیا اور آپ نے ایک ماہ تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی، اس بنا پر اپنے بالا خانے میں تشریف فر ہوئے جس کی سیڑھی کھجور کے تنوں کی تھی، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کی تیمارداری کے لیے آئے، آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بیٹھ کر نماز پڑھائی جبکہ وہ کھڑے تھے۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ”امام تو اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اسی طرح جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر اس کی اقتدا کرو۔” پھر آپ نے انتیس دن پورے ہونے پر بالاخانے سے نزول فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:378]
حدیث حاشیہ: 1۔
ابن بطال نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث
(مَشْرُبَة) اس لیے پیش کی ہے تاکہ لکڑی پر نماز پڑھنے کا جواز ثابت ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بالا خانے کی چھت لکڑیوں کی تھی۔
(شرح ابن بطال42/2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ چھت پر نماز ادا کرنے کے جواز میں اس حدیث کو پیش کیا ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ بالا خانے کی چھت تمام لکڑیوں ہی پر مشتمل ہو۔
(فتح الباری: 632/1) بہر حال امام بخاری ؒ اپنے قائم کردہ عنوان کو ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کو لائے ہیں، یہ ضروری نہیں کہ عنوان کے تمام اجزاء اس سے ثابت ہوں، بلکہ اگر بعض اجزاء بھی ثابت ہو جائیں تو کافی ہے۔
2۔
اس حدیث میں دو واقعات کو یکجا بیان کردیا گیا ہے، حالانکہ ان دونوں کے درمیان تقریباًچار سال کا دورانیہ ہے۔
پہلا واقعہ رسول اللہ ﷺ کا گھوڑے سے گرنے کا ہے جو ذوالحجہ 5ہجری بمطابق مئی 627ء کو پیش آیا۔
آپ قیام مدینہ کے دوران میں گھوڑے پر سوار ہو کر غابہ جانا چاہتے تھے کہ گھوڑے نے شوخی میں آکر آپ کو ایک کھجور کے درخت پر گرادیا جس سے قدم مبارک کی ہڈی اپنے جوڑسے الگ ہو گئی، اس کے علاوہ آپ کا پہلو بھی زخمی ہوا چوٹ معمولی نہیں، بلکہ زیادہ تھی، اس لیے آپ نے بالاخانے میں قیام فرمایا، معذوری کی وجہ سے مسجد میں نہ جا سکے، بلکہ وہیں نمازیں پڑھتے رہے، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عیادت کے لیے تشریف لاتے اور موقع پاکر نماز میں شریک ہو جاتے تھے۔
دوسرا واقعہ ایلا کا ہے جو 9 ہجری میں پیش آیا۔
اس میں بھی آپ نے بالا خانے میں قیام فرمایا، مگر معذور نہ تھے اس لیے نماز یں مسجد ہی میں ادا کرتے تھے، اس سے ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین سے تخلیہ مقصود تھا، اس میں حسب معمول اوقات نماز میں مسجد میں آتے اور امامت کے فرائض سر انجام دیتے۔
انھی دنوں حضرت عمر ؓ کے نماز فجر رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں ادا کرنے کا بیان بخاری میں ہے، ان دونوں واقعات میں مابه الاشتراک دو چیزیں تھیں جس سے بعض راویوں کو دھوکا ہوا اور انھوں نے دونوں واقعات کو ایک ہی سیاق میں بیان کردیا۔
دونوں واقعات میں قیام بالاخانے میں رہا۔
دونوں واقعات میں مدت قیام انتیس دن تھی۔
لیکن کچھ چیزیں مابه الافتراق
(الگ الگ) بھی ہیں، مثلاً:
سقوط
(کرنے والے واقعے) میں انفکاک قدم
(پیرمیں چوٹ لگنے) کی وجہ سے مسجد میں تشریف نہیں لے جاتے تھے، جبکہ واقعہ ایلا میں حسب معمول مسجد میں تشریف لے جاتے رہے۔
نیز واقعہ ایلا میں ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اور ان کے متعلقین کو جو پریشانی اور بے چینی لاحق تھی وہ واقعہ سقوط میں نہیں تھی۔
واقعہ ایلا میں ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اور ان کے متعلقین کو تھی اس کی جھلک صحیح بخاری کی حدیث
(2468) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
3۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں صرف تین مرتبہ بیٹھ کر نماز ادا فرمائی۔
غزوہ احد میں جب آپ کو زخم آئے تو ظہرکی نماز بیٹھ کر ادا فرمائی۔
یہ 3ہجری کا واقعہ ہے۔
5۔
ہجری میں سقوط عن الفرس
(گھوڑے سے گرنے) کے وقت بھی آپ بیٹھ کر نمازیں ادا کرتے رہے، ان دونوں مواقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نمازیں ادا کیں۔
11ہجری مرض وفات میں آپ نے بیٹھ کر نمازیں پڑھائیں جبکہ مقتدی حضرات کھڑے ہو کر آپ کی اقتدا کرتے تھے۔
آئندہ اس کی تفصیل ہدیہ قارئین ہوگی۔
4۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ایک ماہ کی مہاجرت اور ترک روابط کی حکمت یہ ہے کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی تعداد نو تھی زیادہ سے زیادہ تین دن تک کسی دوسرے سے ترک کلام کیا جا سکتا ہے۔
9۔
ازواج کے لیے تین دن کے حسب سے 27 دن ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے ہوئے اور آپ کی ایک لونڈی ماریہ قبطیہ بھی تھیں، دودن اس کی مہاجرت شامل کرنے سے کل انتیس دن ہوتے ہیں۔
اس طرح رسول اللہ ﷺ نے صرف تین دن کی مہاجرت کی ہے۔
(فتح الباري: 233/9) ترکلام میں باری مقرر کرنا رسول اللہ ﷺ کے اخلاق عالیہ کے خلاف تھا، اس لیے ایک ساتھ تمام سے ترک کلام فرمایا۔
واللہ علم۔
5۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تھی۔
آپ نے فراغت کے بعد انھیں سمجھایا، اگر امام کھڑا ہو کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی کھڑے ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں۔
ابو داود میں اس کی تفصیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب تیماداری کے لیے آئے تو رسول اللہ ﷺ نوافل بیٹھ کر ادا کر رہے تھے۔
انھوں نے بطور تبرک شمولیت اختیار کر لی، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی پھر دوبارہ عیادت کے لیے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز بیٹھ کر ادا کر رہے تھے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی ساتھ شامل ہو گئے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں ارشاد فرمایا کہ تم میرے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرو، چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کی
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 602) اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی حضرات بھی اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کریں۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے قول اور عمل سے ثابت ہے، لیکن امام بخاری ؒ کے نزدیک یہ عمل منسوخ ہے۔
آپ نے صحیح بخاری میں دو مقام پر اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
شیخ حمیدی ؒ سے منقول ہے کہ ارشاد نبوی:
”جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
“ مرض قدیم میں تھا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مرض وفات میں بیٹھ کر نماز پڑھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کھڑے ہو کر اقتدا کی۔
آپ نے اس وقت انھیں بیٹھنے کا حکم نہیں دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری فعل ہی کو معمول بنایا جا سکتا ہے۔
(صحیح البخاری، الأذان، حدیث: 689) شیخ حمیدی نے کہا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے آخری نماز بیٹھ کر پڑھائی جب کہ لوگ آپ کے پیچھے کھڑے تھے۔
(صحیح البخاري،المرض، حدیث: 5658) ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ اگر امام کسی عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے تو مقتدی حضرات تو معذور نہیں ہیں۔
انھیں کھڑے ہو کر نماز پڑھنی چاہیے۔
واللہ أعلم۔