ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ نے ایک ہی آیت میں صبح کر دی، وہ آیت یہ تھی: «إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحكيم»”یعنی اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو انہیں معاف فرما دے تو تو (غالب و زبردست) ہے، اور حکیم (حکمت والا) ہے“(المائدہ: ۱۱۸)۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 179 (1350)، (تحفة الأشراف: 12012)، مسند احمد 5/156، 170، 177 (حسن)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1011
1011۔ اردو حاشیہ: ➊ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں ایک آیت کو بار بار پڑھا جا سکتا ہے۔ ➋ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے بہت فکر مند تھے اور ہر نیک و بد کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہتے تھے۔ ➌ کسی کو بخشا یا اسے سزا دینا صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ہستی ایسی نہیں جو کسی کے اچھے یا برے انجام کا فیصلہ کر سکے حتیٰ کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس چیز کا اختیار نہیں رکھتے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب دینے کا فیصلہ کر دیں تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے عذاب سے بچا سکیں۔ ہاں! اللہ تعالیٰ سفارش کا حق دیں گے جسے چاہیں گے اور جس کے لیے چاہیں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1011
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1350
´تہجد (قیام اللیل) میں قرات قرآن کا بیان۔` جسرۃ بنت دجاجہ کہتی ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز میں کھڑے ہوئے، اور ایک آیت کو صبح تک دہراتے رہے، اور وہ آیت یہ تھی: «إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحكيم»”اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو بخش دے، تو تو عزیز (غالب)، اور حکیم (حکمت والا) ہے“(سورة المائدة: 118)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1350]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر کسی کو زیادہ قرآن مجید یاد نہ ہو تو جتنا کچھ یاد ہو۔ اسی کو بار بار پڑھ کر طویل قیام اور کثیر قراءت کا ثواب حاصل کرسکتا ہے۔
(2) یہ آیت حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق ہے کہ جب قیامت میں ان سے ان کی امت کی گمراہی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ جواب عرض کریں گے۔ جو ا س آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں اللہ کی عظمت وجلال کا اعتراف بھی ہے۔ اور اپنی عاجزی، اطاعت اور امید رحمت کا اظہار بھی اور ایک لطیف پیرائے میں امت کےلئے مغفرت کی درخواست بھی (3) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد ان کی اُمت میں غلط عقائد پیدا ہوئے۔ وہ ان سے بے خبر ہیں کیونکہ نبی عالم الغیب نہیں ہوتے۔
(4) سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت اپنی امت کے حق میں دعا کے طور پرتلاوت فرمائی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی کسی دعا کو کوئی شخص اپنے حالات کے موافق پا کر اپنے لئے دعا کےطور پرپڑھ سکتا ہے۔
(5) قیام میں تلاوت کے دوران میں دعا مانگنا جائز ہے۔ تاہم اس کے لئے ہاتھ نہیں اٹھائے جایئں گے۔
(6) قیام کے علاوہ سجدہ اور تشہد بھی دعا کے لئے مناسب موقع ہے۔ اس لئے اپنی ضرورت کی کوئی دعا ان اوقات میں مانگی جا سکتی ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشھد ولیس بواجب، حدیث: 835، وصحيح مسلم، الصلاة، باب النھي عن قراءت القرآن فی الرکوع والسجود، حدیث: 479)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1350