حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، ابن ماجہ919
محدثین کرام اور ضعیف جمع ضعیف کی مروّجہ حسن لغیرہ کا مسئلہ؟
جلیل القدر محدثین کرام نے ایسی کئی احادیث کو ضعیف وغیر ثابت قرار دیا، جن کی بہت سی سندیں ہیں اور ضعیف جمع ضعیف کے اُصول سے بعض علماء انھیں حسن لغیرہ بھی قرار دیتے ہیں، بلکہ بعض ان میں سے ایسی روایات بھی ہیں جو ہماری تحقیق میں حسن لذاتہ ہیں۔
اس مضمون میں ایسی دس روایات پیش خدمت ہیں جن پر اکابر علمائے محدثین نے جرح کی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ضعیف جمع ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ کو حجت نہیں سمجھتے تھے: — نمبر 5 —
عام نمازوں میں صرف ایک سلام پھیرنے والی روایت کئی سندوں سے مروی ہے، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
1: عن حمید الطویل عن أنس بن مالک رضي اللہ عنہ (المعجم الاوسط للطبرانی بحوالہ الصحیحہ للالبانی: 316 وسندہ ضعیف)
2: عن أیوب عن أنس رضي اللہ عنہ (مصنف ابن ابی شیبہ بحوالہ الصحیحہ 1/ 566 وسندہ ضعیف)
3: عن سلمۃ بن الأکوع رضي اللہ عنہ (ابن ماجہ: 930 وسندہ ضعیف / انوار الصحیفہ ص411)
4: عن عائشۃ رضي اللہ عنھا (ترمذی:296، ابن ماجہ:919 بسندین ضعیفین)
5: عن سھل بن سعد الساعدي رضي اللہ عنہ (ابن ماجہ:918)
اس طرح کی اور روایات بھی ہیں جو شیخ البانی وغیرہ کے اصول سے مروّجہ حسن لغیرہ بن جاتی ہیں۔
لیکن حافظ ابن عبد البر نے فرمایا:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سعد بن ابی وقاص، عائشہ اور انس (رضی اللہ عنہم) کی احادیث سے ایک سلام مروی ہے، لیکن یہ روایتیں معلول ہیں، علمائے حدیث انھیں صحیح قرار نہیں دیتے۔ (الاستذکار 1/ 489 باب التشھد فی الصلوٰۃ)
ابن الجوزی نے کہا: ”والجواب أن ھذہ الأحادیث ضعاف“
اور جواب یہ ہے کہ یہ حدیثیں ضعیف ہیں۔ (التحقیق ومعہ التنقیح لابن عبد الھادی 1/ 369 تحت ح 622)
نووی نے ایک سلام والی حدیث کے بارے میں کہا: ”ضعفہ الجمھور ولایقبل تصحیح الحاکم لہ ……… و لیس فی الاقتصار علٰی تسلیمۃ واحدۃ شئثابت“
جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا اور حاکم کا اسے صحیح کہنا قابل ِقبول نہیں ……… ایک سلام پر اکتفاکرنے والی کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔ (خلاصۃ الاحکام ج 1 ص 445، 446 فقرہ: 1460، 1463)
عقیلی نے کہا: ”ولایصح فی التسلیمۃ شئ“
اور ایک سلام کے بارے میں کوئی چیز صحیح نہیں۔ (الضعفاء للعقیلی مخطوطہ برلن ومطبوعہ محققہ 1/ 475 ترجمۃ ثمامۃ بن عبیدۃ، ونسخۃ دارالصمیعی 1/ 195)
اور فرمایا: ”والحدیث في تسلیمۃ أسانیدھا لینۃ“
اور ایک سلام کے بارے میں حدیث کی سندیں کمزور ہیں۔ (الضعفاء للعقیلی نسخۃ عبدالمعطی 2/ 58، نسخۃ الصمیعی 2/ 412، نسخۃ دارمجد السلام مصر 2/ 336)
ثابت ہوا کہ ابن عبد البر، ابن الجوزی، نووی اور عقیلی چاروں ضعیف جمع ضعیف کو حسن لغیرہ بنا کر حجت نہیں سمجھتے تھے۔
نیز دیکھئے المحلی لابن حزم (4/ 132 مسئلہ 457) تنبیہ: نماز جنازہ میں صرف دائیں طرف سلام پھیرنا حدیث سے ثابت ہے۔ (دیکھئے میری کتاب:مختصر صحیح نمازِ نبوی ص95، طبع جدید 2009ء)
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 72
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 296
´سلام پھیرنے سے متعلق ایک اور باب۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے چہرے کے سامنے داہنی طرف تھوڑا سا مائل ہو کر ایک سلام پھیرتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 296]
اردو حاشہ: 1؎: اور اسی پر امت کی اکثریت کا تعامل ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 296