عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم إني أعوذ بك من الشيطان الرجيم وهمزه ونفخه ونفثه»”اے اللہ! میں مردود شیطان کے جنون، وسوسے اور کبر و غرور سے تیری پناہ چاہتا ہوں“۔ راوی کہتے ہیں: «ہمز» سے مراد اس کا جنون ہے، «نفث» سے مراد شعر ہے اور «نفخ» سے مراد کبر و غرور ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: طیبی کہتے ہیں کہ اگر یہ تفسیر حدیث میں داخل ہے تو اس کے سوا دوسری تفسیر نہیں ہو سکتی، اور جو راوی نے یہ تفسیر کی ہے تو «نفث» سے «سحر» بھی مراد ہو سکتا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: «ومن شر النفاثات في العقد» سورة الفلق: 4، اور «ہمز» سے شیطان کا وسوسہ بھی مراد ہو سکتا ہے، جیسے قرآن میں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9332، ومصباح الزجاجة: 302)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 122 (775)، سنن الترمذی/المواقیت 65 (242)، مسند احمد (1/403) (صحیح)» (سند میں عطاء بن السائب اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہیں، اور محمد بن فضیل نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کی ہے، نیز ابو عبدالرحمن السلمی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے، لیکن طرق و شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، تراجع الألبانی: رقم: 472، و الإرواء: 2/54)۔
It was narrated from Ibn Mas’ud that the Prophet (ﷺ) said:
“Allahumma inni a’udhu bika minash-Shaitanir-rajim, wa hamzihi wa nafkhihi wa mafthihi (O Allah, I seek refuge in You from the accursed Satan, from his madness, his pride, and his poetry).”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث808
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1)(هَمزٌ) کا مطلب ہے کہ دوسرے کے جسم میں ہاتھ کی انگلیاں زور سے چبھونا جس سے اسے تکلیف محسوس ہو۔ موتہ ایک بیماری ہے جو شیطان کے اثر سے ہوتی ہے۔ اور جنون یا مرگی کے دورے سے مشابہ ہے۔ اس میں انسان کو اپنا ہوش نہیں رہتا۔ دورہ ختم ہونے پرمریض پوری طرح ہوش وحواس میں آ جاتا ہے۔
(2)(نفث) سے پھونک مارنے کا وہ انداز مراد ہوتا ہے۔ جسے دم کرتے ہوئے اختیار کیا جاتا ہے۔ فحش شاعری گندے گانے اور بے ہودہ اشعار شیطان کی ترغیب کا نتیجہ ہیں۔ جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ البتہ اخلاقی اور معاشرتی خرابیاں اور نقصانات واضح ہیں۔ اس لئے ان کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرنا ضروری ہے۔ (نفث) کا مطلب وسوسہ بھی ہو سکتا ہے۔
(3)(نفخ) سے مراد پھونک مارنے کا وہ انداز ہے۔ جیسے کسی چیز میں ہوا بھری جاتی ہے۔ یا زور سے کسی چیز پر پھونک ماری جاتی ہے۔ دعا میں اس سے مراد فخر وتکبر کی کیفیت ہے۔ جس کی وجہ سے انسان دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اور خود کو ان سے برتر محسوس کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے اور بہت سی اخلاقی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 808