ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دریائے فرات میں سونے کے پہاڑ نہ ظاہر ہو جائیں، اور لوگ اس پر باہم جنگ کرنے لگیں، حتیٰ کہ دس آدمیوں میں سے نو قتل ہو جائیں گے، اور ایک باقی رہ جائے گا“۱؎۔
وضاحت: ۱ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ ہر سو میں سے ننانوے مارے جائیں گے اور ہر شخص کہے گا کہ شاید میں بچ رہوں اور سونے کے اس پہاڑ کو لوں اور لڑے گا، صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے کہ جب یہ خزانہ نمودار ہو تو جو وہاں موجود ہو اس میں سے کچھ نہ لے، واضح رہے کہ اس خزانے کے حصول کے لیے بہت قتل و غارت ہو گی، ہر شخص یہی چاہے گا کہ یہ خزانہ اسی کو ملے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15098، ومصباح الزجاجة: 1426)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الفتن 24 (7119)، صحیح مسلم/الفتن 8 (2894)، سنن ابی داود/الملاحم 13 (4313)، سنن الترمذی/صفة الجنة 26 (2569)، مسند احمد (2/261، 332، 360) (حسن صحیح)» ( «من کل عشرة تسعة» کا لفظ ضعیف اور شاذ ہے، «من کل مئة تسعة وتسعون» کا لفظ محفوظ ہے)۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح دون قوله من كل عشرة تسعة فإنه شاذ والمحفوظ من كل مائة تسعة وتسعون م
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف شاذ جاء في صحيح مسلم (2894 / 29)”فيقتل من كل مائة تسعة وتسعون“ وھو الصواب انوار الصحيفه، صفحه نمبر 521
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4046
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے شاذ ہونے کی وجہ سے ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے ایک جملے کے سوا باقی روایت کو حسن قراردیا ہے۔ شیخ البانی اور دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت (مِنْ كُلِّ عَشرَة تِسْعَة) دس میں سے نو افراد۔ والے کے جملے کے علاوہ حسن صحیح ہے۔ کیونکہ مذکورہ جملہ شاذ ہے جبکہ محفوظ الفاظ (مِنْ كُلِّ مِائَةٌ تِسْعَة وَّ تِسْعُوْن) ہر سو میں سے نناوے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی اس جملے کو شاذ قراردیا ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت اس جملے کے سوا حسن بن جاتی ہے۔ والله اعلم، دیکھیے: (صحيح سنن ابن ماجة للألباني، رقم: 3286 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم: 4046)
(2) دریائے فرات ترکی سے شروع ہوکرشام عراق میں سے گزرتا ہوا خلیج فارس میں گرتا ہے۔ ترکی کا وہ حصہ بھی اس سے سیراب ہوتا ہے جہاں کردستان کے نام سے الگ ملک بنانے کی تحریک چل رہی ہے۔ اور عراق کا وہ حصہ جہاں یہ سمندر میں گرتا ہے۔ ایران اور کویت دونوں کی سرحدوں کے قریب ہے۔ اس لیے اس علاقے میں معدنی دولت کا خزانہ ظاہر ہونے پر علاقے کے ممالک میں جنگ کا چھڑنا ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ ہی علاقے کے ممالک کی سلامتی اور تحفظ کے نام پر بڑے ملک (امریکہ، روس اور چین وغیرہ) بھی اس دولت پر قبضہ جمانے کے لیے شریک ہوسکتے ہیں۔
(3) اس واقعہ کی پیشگی خبر دینے میں یہ حکمت ہے کہ سمجھ دار آدمی دولت کا لالچ نہ کریں اور جنگ میں شریک ہوکر جانیں نہ گنوائیں باالخصوص یہ جنگ اتنی شدید اور خطرناک ہوگی کہ ننانوے فیصد لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور صرف ایک فی صد جنگجو زندہ بچیں گے۔ ان کا حال بھی زخموں اور بیماریوں کی وجہ سے قابل رشک نہیں ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4046
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2569
´باب:۔۔۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ دریائے فرات سونے کا خزانہ اگلے، لہٰذا (اس وقت) جو موجود ہو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة/حدیث: 2569]
اردو حاشہ: وضاحت: 1 ؎: اس لیے کہ یہ جھگڑا اور فتنہ و فساد کا ذریعہ بن جائے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2569
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7276
عبد اللہ بن حارث بن نوفل رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑا ہوا تھا تو انھوں نے کہا لوگوں کی گردنیں دنیا کی طلب میں ہمیشہ مختلف رہیں گی، میں نے کہا، ہاں،حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"قریب ہے فرات سے ایک سونے کا پہاڑ ظاہر ہو جائے گا سو لوگ جب یہ بات سنیں گے، اس کی طرف چل پڑیں گے،پہاڑ کے قریب کے لوگ کہیں گے اگر ہم لوگوں کو اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7276]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) اجم، قلعہ، جمع آجام ہے۔ (2) اعناق، عنق (گردن) کی جمع ہے، اس سے مراد، لوگوں کی حرص وآز کوبیان کرنا ہے کہ عام طور پر لوگ حصول دنیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی چیز ان میں باہمی رنجش واختلاف کا باعث بنتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7276
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7119
7119. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عنقریب دریائے فرات سے سونے کا خزانہ ظاہر ہوگا جو کوئی وہاں موجود ہو وہ اس سے کچھ نہ لے۔“ ایک دوسری روایت ہے میں ہے کہ سونے کا پہاڑ ظاہر ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7119]
حدیث حاشیہ: تو خزانے کے بدل پہاڑ کا لفظ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7119
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7119
7119. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عنقریب دریائے فرات سے سونے کا خزانہ ظاہر ہوگا جو کوئی وہاں موجود ہو وہ اس سے کچھ نہ لے۔“ ایک دوسری روایت ہے میں ہے کہ سونے کا پہاڑ ظاہر ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7119]
حدیث حاشیہ: 1۔ کچھ لوگوں نے سونے سے تیل یا پٹرول کا کنواں مراد لیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ حدیث سونے کے پہاڑ کی صریح نص ہے جبکہ پٹرول میں سونا نہیں بلکہ سونا ایک معدن کا نام ہے۔ ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب زمین اپنے کلیجے کے ٹکڑے نکال باہر پھینکے گی جیسے سونے اور چاندی کے بڑے بڑے ستون ہوتے ہیں۔ قاتل آئے گا اور کہے گا: میں نے اس کے لیے قتل کیا، رشتہ داری توڑنے والا آئے گا اور کہے گا: میں نے اس کے لیے رشتوں کوتوڑا، چور آئے گا اور کہے گا: اسی کے لیے میرا ہاتھ کاٹا گیا پھر سب کے سب اس کو چھوڑیں گے اور اس میں سے کچھ بھی نہیں لیں گے۔ “(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2341(1013) 2۔ اس خزانے سے کچھ نہ لینے کی ممانعت اس لیے ہے کہ وہاں قتل وغارت کی صورت پیش آئے گی جیسا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرات میں سونے کا پہاڑ ظاہر ہوگا۔ جب لوگ سنیں گے تو اس کی طرف چل دیں گے اور جو لوگ وہاں موجود ہوں گے وہ کہیں گے: اگر ہم نے انھیں اس پہاڑ سے لینے دیا تو یہ سارا سونا لے جائیں گے۔ آخر کار جنگ ہوگی اور نناوے فیصد لوگ مارے جائیں گے۔ “(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2341(1013)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7119