(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي , حدثنا ابو يحيى زكريا بن منظور , حدثني محمد بن عقبة بن ابي مالك , عن ام هانئ , قالت: اتيت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت: يا رسول الله , دلني على عمل , فإني قد كبرت وضعفت وبدنت , فقال:" كبري الله مائة مرة , واحمدي الله مائة مرة , وسبحي الله مائة مرة , خير من مائة فرس ملجم مسرج في سبيل الله , وخير من مائة بدنة , وخير من مائة رقبة". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى زَكَرِيَّا بْنُ مَنْظُورٍ , حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ , عَنْ أُمِّ هَانِئٍ , قَالَتْ: أَتَيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ , فَإِنِّي قَدْ كَبِرْتُ وَضَعُفْتُ وَبَدُنْتُ , فَقَالَ:" كَبِّرِي اللَّهَ مِائَةَ مَرَّةٍ , وَاحْمَدِي اللَّهَ مِائَةَ مَرَّةٍ , وَسَبِّحِي اللَّهَ مِائَةَ مَرَّةٍ , خَيْرٌ مِنْ مِائَةِ فَرَسٍ مُلْجَمٍ مُسْرَجٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَخَيْرٌ مِنْ مِائَةِ بَدَنَةٍ , وَخَيْرٌ مِنْ مِائَةِ رَقَبَةٍ".
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی عمل بتلائیے، میں بوڑھی اور ضعیف ہو گئی ہوں، میرا بدن بھاری ہو گیا ہے ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو بار «اللہ اکبر»، سو بار «الحمدللہ»، سو بار «سبحان اللہ» کہو، یہ ان سو گھوڑوں سے بہتر ہے جو جہاد فی سبیل اللہ میں مع زین و لگام کے کس دیئے جائیں، اور سو جانور قربان کرنے، اور سو غلام آزاد کرنے سے بہتر ہیں“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اب محنت والی عبادت مجھ سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18013، 18014، ومصباح الزجاجة: 1334)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/344) (حسن)» (سند میں زکریا بن منظور ضعیف اور محمد بن عقبہ مستور ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ حسن ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف زكريا بن منظور: ضعيف ومحمد بن عقبة: مستور وللحديث شواهد ضعيفة عند أحمد (344/6)وغيره انوار الصحيفه، صفحه نمبر 513
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3810
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے اور اس پر تفصیلی بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر حسن درجے تک پہنچ جاتی ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: (الصحيحة للألبانى رقم: 1312 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم: 3810) بنا بریں جو شخص بڑے بڑے اعمال انجام نہ دے سکتا ہو، اس کے لیے اللہ کا ذکر ان اعمال سے بہتر ہے۔
(2) معمر آدمی کو اللہ کے ذکر میں زیادہ مشغول ہونا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3810