شرید ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے امیہ بن ابی صلت کے سو اشعار پڑھے، آپ ہر شعر کے بعد فرماتے جاتے: اور پڑھو“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب تھا کہ وہ مسلمان ہو جائے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الشعر (2255)، سنن الترمذی/الشمائل (249)، سنن النسائی/الیوم و للیلة (998)، (تحفة الأشراف: 4836)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/388، 389) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3758
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: اچھے اشعار کی تعریف کرنا اور فرمائش کر کے سننا جائز ہے، خواہ کسی غیر مسلم شاعر ہی کے ہوں۔ اچھے شعر سے مراد یہ ہے کہ اس میں کفر و شرک یا فسق وفجور والی باتیں نہ ہوں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3758
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:828
828-عمروبن شرید اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں امیہ بن ابوصلت کا کوئی شعر یاد ہے؟“ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سناؤ“ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شعر سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور سناؤ“ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اور شعر سنایا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل یہی فرماتے رہے ”اور سناؤ“ یہاں تک کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سو اشعار سنائے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:828]
فائدہ: اشعارا گر حکمت پر مبنی ہوں اور ان میں شرک اور بے حیائی نہ ہو تو انھیں سننا اور سنانا جائز ہے، تاہم شعروں کی کثرت خواہ اچھے ہی ہوں مذموم ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 828