ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے اچھے اور برے اعمال میرے سامنے پیش کیے گئے، تو میں نے ان میں سب سے بہتر عمل راستے سے تکلیف دہ چیز کے ہٹانے، اور سب سے برا عمل مسجد میں تھوکنے، اور اس پر مٹی نہ ڈالنے کو پایا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11992)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 13 (553)، مسند احمد (5/178) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3683
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) ہروه عمل نیکی ہے جس سے لوگوں کو فائدہ یا نقصان سے بچاؤ ہو (بشرطیکہ وہ شریعت کے کسی خاص حکم کے خلاف نہ ہو) اور ہر وہ عمل برائی ہے جو اس کے برعکس ہو۔
(2) کسی نیکی کو معمولی سمجھ کر ترک نہیں کرنا چاہیے اور کسی برائی کو معمولی سمجھ کر اس کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔
(3) مسجد کی صفائی کا اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔
(4) اس زمانے میں فرش کچا ہوتا تھا، اس لیے بلغم وغیرہ پر مٹی ڈال دینے سے وہ جذب ہو کر ختم ہو جاتا تھا۔ آج کل کے حالات کے مطابق پانی سے صفائی ضروری ہے۔
(5) اگر تھوکنے کی ضرورت پیش آئے تو وضو کی جگہ جا کر تھو کا جائے یا رومال میں تھوک لیا جائے، کراہت ہو تو بعد میں رومال دھولیا جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3683
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1233
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھ پر میری امت کے اچھے اور برے اعمال پیش کیے گئے تو میں نے اس کے اچھے اعمال میں راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو پایا اور میں نے اس کے برے اعمال میں مسجد میں کنگھار کو پایا جس کو دفن نہیں کیا گیا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1233]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپﷺ کو اپنی زندگی میں امت کے اچھے اور برے عملوں کا مشادہ کروایا گیا تاکہ آپﷺ امت کو اچھے اور برے عملوں سے (عَلیٰ وَجْهِ الْبَصِیْرۃ) آگاہ فرما دیں اور آپﷺ نے یہ فریضہ سرانجام دے دیا، لیکن یہ کہنا (یہ تصریح ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر امت کے تمام اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ حدیث کے مفہوم ومعنی میں اپنی طرف سے اضافہ ہے اور یہ حدیث کا منشا اور مقصد نہیں ہے۔