ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! میں دو کمزوروں ایک یتیم اور ایک عورت کا حق مارنے کو حرام قرار دیتا ہوں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بیوہ اور یتیم دونوں کا مال کھا جانا اور اس میں الٹ پھیر کرنا سخت گناہ ہے، اگرچہ اور کسی کا مال کھا جانا حرام اور گناہ ہے، مگر ان دونوں کا مال ناجائز طور پر کھانا نہایت سخت گناہ ہے، اس لئے کہ یہ دونوں ناتواں اور کمزور ہیں، روزی کمانے کی ان میں قدرت نہیں ہے، تو ان کو اور دینا چاہیے نہ کہ انہی کا مال لے لینا، بہت بدبخت ہیں وہ لوگ جو یتیم اور بیوہ کا مال ناحق کھا لیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13047، ومصباح الزجاجة: 1281)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/439) (حسن)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3678
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) یتیم اپنی ضروریات کے سلسلے میں اپنے سر پرست کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ اس سے اس طرح مطالبہ نہیں کر سکتا جس طرح بچہ اپنے باپ سے ضد کر کے یا ناز کے ساتھ اپنی بات منوا لیتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ یتیم کی ضروریات اس کے مطالبے کے بغیر پوری کی جائیں۔
(2) عورت اخلاقی، قانونی اور شرعی طور پر اپنے خاوند کے ماتحت ہے۔ اگر خاوند اس کے حقوق پوری طرح ادا نہ کرے اس کے با وجود وہ اپنے بچوں کی محبت کی وجہ سے یا خاوند سے محبت کی وجہ سےاس گھر میں رہنے پر مجبور ہو تو خاوند کو چاہیے کہ اس کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے بلکہ اس کے حقوق بہتر انداز سے ادا کرے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3678