بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے دیکھا، اتنے میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں لال قمیص پہنے ہوئے آ گئے کبھی گرتے تھے کبھی اٹھتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اترے، دونوں کو اپنی گود میں اٹھا لیا، اور فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول کا قول سچ ہے: «إنما أموالكم وأولادكم فتنة»”بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں“، میں نے ان دونوں کو دیکھا تو صبر نہ کر سکا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ شروع کر دیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ خطبہ کے درمیان بات کرنا اور بچوں کا اٹھا لینا اور کسی کام کے لئے منبر پر سے اترنا اور تھوڑی دیر کے لئے خطبہ روک دینا جائز ہے، دوسرے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی فضیلت و منقبت، تیسرے یہ کہ نبی اکرم ﷺ کی ان دونوں سے غایت درجہ محبت اورقلبی لگاؤ، چوتھے چیز لال رنگ کا جواز کیونکہ یہ دونوں صاحبزادے لال رنگ کی قمیص پہنے ہوئے تھے، اگر یہ ناجائز ہوتا تو آپ ﷺ اس سے منع فرماتے یا اسے اتارنے کا حکم دیتے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3600
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے کہ سرخ لباس پہننا جائز ہے۔ ممکن ہے یہ قمیضیں خالص سرخ رنگ کی نہ ہوں۔
(2) بچوں سے پیار معزز شخصیت کی شان کے خلاف نہیں بلکہ ایک خوبی ہے۔
(3) خطبے کے دوران میں کسی ضرورت کے تحت منبر سے اترنا جائز ہے۔
(4) مال اور اولاد کے آزمائش ہونے کا یہ مطلب ہے کہ بہت دفعہ انسان مال اور اولاد کی محبت کی وجہ سے غلط کاموں کا ارتکا ب کر لیتا ہے اس لئے مومن کو احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ مال کى طلب میں یا اولاد کی محبت کی وجہ سے کوئی خلاف شریعت کام نہ ہو جائے۔
(5) خطبے کے دوران میں موضوع سے غیر متعلق بات کرنے میں حرج نہیں بشرطیکہ وہ ضروری بات ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3600
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1414
´جمعہ کے دن خطبہ کے خاتمہ سے پہلے امام کے منبر سے اترنے اور خطبہ سے رک جانے پھر دوبارہ منبر کی طرف لوٹنے کا بیان۔` بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے اتنے میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہم لال رنگ کی قمیص پہنے گرتے پڑتے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اتر پڑے، اور اپنی بات بیچ ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو گود میں اٹھا لیا، پھر منبر پر واپس آ گئے، پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے «إنما أموالكم وأولادكم فتنة»”تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں“ میں نے ان دونوں کو ان کی قمیصوں میں گرتے پڑتے آتے دیکھا تو میں صبر نہ کر سکا یہاں تک کہ میں نے اپنی گفتگو بیچ ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو اٹھا لیا۔“[سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1414]
1414۔ اردو حاشیہ: ➊ إنصات کا حکم مقتدیوں کے لیے ہے۔ امام صاحب خطبۂ جمعہ کے دوران میں کسی کے ساتھ بات چیت بھی کرسکتے ہیں اور کوئی ضروری کام بھی کرسکتے ہیں۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نہ اٹھاتے تو آپ کی توجہ انھی کی طرف مبذول رہتی۔ خطبہ تو پھر بھی منقطع ہونا ہی تھا، اس لیے آپ نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ بار بار گرتے اٹھتے رہیں۔ آپ نے نبوی شفقت اور اپنی شان رحیمی کو عمل میں لاتے ہوئے خطبہ منقطع فرمایا، انہیں اٹھایا اور پھر خطبہ شروع کر دیا۔ آپ کا اس آیت کریمہ کا تلاوت فرمانا یہ معنیٰ نہیں رکھتاکہ میں نے جو بچوں کو اٹھایا ہے، وہ غلط کام کیا ہے کیونکہ یہ کام تو عین تقاضائے شفقت و رحمت ہے۔ اگر نہ اٹھاتے تو مناسب نہ ہوتا، بلکہ اس آیت کریمہ کو تلاوت فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس آزمائش میں پورا اترے اور اس کے ساتھ ساتھ گمراہ بھی نہ ہو، حقوق اللہ میں کوتاہی نہ کرے اور ان کے حقوق میں بھی سستی نہ کرے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بہترین نمونہ پیش فرمایا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ➋ کسی شدید ضرورت کے پیش نظر خطبے کا تسلسل توڑ دینا، منبر سے اترنا، موضوع سے ہٹ کر کوئی اور بات کر لینا اور پھر جہاں سے چھوڑا وہیں سے خطبہ شروع کر لینا جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1414
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1586
´خطبہ سے فارغ ہونے سے پہلے امام کے منبر سے اترنے کا بیان۔` بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران حسن اور حسین رضی اللہ عنہم سرخ قمیص پہنے گرتے پڑتے آتے دکھائی دیے، آپ منبر سے اتر پڑے، اور ان دونوں کو اٹھا لیا، اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: «إنما أموالكم وأولادكم فتنة»”تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں“ میں نے ان دونوں کو ان کی قمیصوں میں گرتے پڑتے آتے دیکھا تو میں صبر نہ کر سکا یہاں تک کہ میں منبر سے اتر گیا، اور میں نے ان کو اٹھا لیا۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1586]
1586۔ اردو حاشیہ: بچوں سے محبت اور شفقت انسانی تقاضا ہے، لہٰذا انہیں پیار کرنے اور تکلیف سے بچانے کے لیے خطبہ روکنا، منبر سے اترنا اور انہیں اٹھالینا عین فطرت انسانیہ کا تقاضا ہے، اگرچہ اس میں وقتی طور پر عبادت سے توجہ ہٹ جائے گی مگر انسان عبادت کے علاوہ اور احکام کا بھی مکلف ہے۔ اور ان سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ باقی رہی آزمائش تو انسان اور اس کی ہر چیز آزمائش ہے۔ اس سے مذمت ثابت نہیں ہوتی الایہ کہ انسان ان چیزوں اور کی وجہ سے گمراہ ہو جائے۔ اعاذ نااللہ۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے اسوۂ حسنہ تھے، اس لیے آپ اپنے ظاہری افعال میں عام انسانی جذبات ملحوظ رکھتے تھے، اپنے روحانی درجے اور رتبے کو لوگوں کے لیے تکلیف کا ذریعہ نہیں بناتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1586
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1109
´کسی حادثہ کے پیش آ جانے پر امام خطبہ میں رک سکتا ہے۔` بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے، اتنے میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں لال قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر سے اتر پڑے، انہیں اٹھا لیا اور لے کر منبر پر چڑھ گئے پھر فرمایا: ”اللہ نے سچ فرمایا ہے: «إنما أموالكم وأولادكم فتنة»(التغابن: ۱۵)”تمہارے مال اور اولاد آزمائش ہیں“ میں نے ان دونوں کو دیکھا تو میں صبر نہ کر سکا“، پھر آپ نے دوبارہ خطبہ دینا شروع کر دیا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1109]
1109۔ اردو حاشیہ: ➊ کسی معقول عارضے کی بنا پر اگر خطبے کا تسلسل ٹوٹ جائے یا توڑنا پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ ➋ حضرا ت حسنین رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین نواسے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی راحت جان «ريحانتاي» فرمایا۔ اور جوانان جنت کے سردار ہونے کی بشارت دی ہے۔ ان کے دل نواز تذکرے سے ہم اہل السنۃ والجماعۃ اصحاب الحدیث کے چہرے کھل اٹھتے، سینے ٹھنڈے ہوتے، آنکھیں ادب میں جھک جاتیں اور زبانیں بے ساختہ «رضي الله تعالي عنهم و أرضاهم» پکارنے لگ جاتی ہیں۔ بہت بڑے ظالم ہیں وہ لوگ جو ہمیں ان سے عدم محبت کا طعنہ دیتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم محبت کے نام پر انہیں صفات الہٰیہ سے متصف نہیں کرتے کہ انہیں عالم الغیب، مشکل کشا، فریاد رس کہنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں افراط و تفریط کے شر سے محفوظ رکھے اور آخرت میں ان مقبولان الہٰی اور محبوبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سے سرفراز فرمائے۔ «آمين»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1109
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3774
´حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان` بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن اور حسین رضی الله عنہما دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آ رہے تھے، آپ نے منبر سے اتر کر ان دونوں کو اٹھا لیا، اور ان کو لا کر اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے «إنما أموالكم وأولادكم فتنة»۱؎”تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں، میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہیں کر سکا، یہاں تک کہ اپنی بات روک کر میں نے انہیں اٹھا لیا“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3774]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: (التغابن:15)
2؎: جہاں یہ بچوں کے ساتھ آپﷺ کے کمال شفقت کی دلیل ہے، وہیں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے آپﷺ کے نزدیک مقام و مرتبہ کی بھی بات ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3774