انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میرے اوپر جھوٹ باندھے ”(انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میرا خیال ہے کہ آپ نے «متعمدا» بھی فرمایا یعنی جان بوجھ کر“۱؎ تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ شک ہے کہ «متعمدا» کا لفظ بھی فرمایا یا نہیں، اور باقی حدیث میں کوئی شک نہیں ہے۔
It was narrated that Anas bin Malik said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Whoever tells lies about me', I (the narrator) think that he also said 'deliberately', let him take his place in Hell.'"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث، صحيح مسلم: 3
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: میں تمھیں زیادہ حدیثیں اس لیے نہیں سناتا کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے: ”جو جان بوجھ کر (جانتے ہوئے) میری طرف جھوٹی بات منسوب کرتا ہے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنّم بنا لے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ہر وقت احادیث بیان کرنے میں بھول چوک کا احتمال ہے، اس لیے جو انسان پوری احتیاط اور حزم سے کام نہیں لیتا، وہ گویا کہ عمداً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی بات منسوب کرتا ہے، لیکن اگر کوئی انسان پورے طور پر حزم و احتیاط سے سے کام لے کر ان روایات کو بیان کرتا ہے، جو اسے پوری طرح یاد ہیں، اور اس کو یقین ہے، تو پھر معمولی چوک کا خطرہ نہیں، کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کر رکھا ہے، یا کتاب سامنے رکھ کر بیان کرتا ہے۔ اور «فَلْيَتَبَوَّأْ» امر کا صیغہ ہے، لیکن خبر کے معنی میں ہے: ”کہ اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ “ یا یہ دعا ہے: ”کہ اللہ تعالیٰ اس کا ٹھکانا جہنم بنائے۔ “
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:108
108. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مجھے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے گا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:108]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ دس سال تک سفر وحضر،عسر ویسر، خلوت وجلوت میں آپ کے ساتھ رہے۔ کثرت صحبت کے نتیجے میں جس قدر روایات ان سے منقول ہونی چاہیے تھیں، اس قدر نہیں ہیں۔ حدیث بالا میں انھوں نے اس کی وجہ بیان فرمائی ہے۔ ان جیسے محتاط صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کا طرز عمل یہ نہ تھا کہ روایات بیان ہی نہ کرتے تھے بلکہ کثرت روایات سے پرہیز کرتے تھے کیونکہ اس میں بے احتیاطی کا اندیشہ تھا۔ چونکہ کتمان علم پر سخت وعید ہے کہ ایسے لوگوں کو قیامت کے دن آگ کی لگام ڈالی جائے گی، اس بناء پر جہاں ضرورت ہوتی وہاں بیان فرما دیتے۔ اس احتیاط کے باوجود حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بکثرت روایات کتب حدیث میں مذکور ہیں۔ وہ شاید اس وجہ سے ہے کہ آپ نے طویل عمر پائی اور اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ سے پہلے رخصت ہوچکے تھے۔ لوگ مسائل پوچھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے، اس لیے روایات کی کثرت ہوئی اگرچہ یہ کثرت بھی ان کے مجموعہ معلومات کے مقابلے میں اقل قلیل ہے۔ (فتح الباري: 266/1) 2۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اگرمجھے بیان حدیث میں غلطی کا اندیشہ نہ ہوتو میں بکثرت احادیث بیان کروں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صرف اسی حدیث کو بیان کرتے تھے جس کے متعلق آپ کو یقین ہوتا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہے۔ اگر کہیں شک پڑ جاتا تو اسے بیان کرنے سے اجتناب کرتے۔ بعض حضرات نے اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آپ روایت باللفظ کا بہت خیال رکھتے تھے، حالانکہ یہ بات درست نہیں، اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت بالمعنی ثابت ہے جیسا کہ قراءت فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنے تکثیر طعام اور وضو کے وقت پانی کے زیادہ ہونے کے متعلق روایات ہیں۔ (فتح الباري: 266/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 108