مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3161
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مصلي سے مراد وہ میدان ہے جہاں عیدین اور استسقاء وغیرہ کی نمازیں ادا کی جاتی تھیں۔
(2) عید گاہ میں ذبح کرنے میں یہ حکمت ہے کہ وہاں امیر غریب سب جمع ہوتے ہیں لہذا تقسیم کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ تاہم عیدگاہ میں ذبح کرنا ضروری نہیں گھر میں بھی ذبح کیا جاسکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3161
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4371
´امام کا اپنی قربانی کا جانور عیدگاہ میں ذبح کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ میں ہی (قربانی کا جانور) ذبح یا نحر کرتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4371]
اردو حاشہ: (1) مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں شوق پیدا ہو۔ آپ کو قربانی ذبح کرتے دیکھنے کے بعد کوئی شخص سستی نہیں کر سکتا تھا بشرطیکہ وہ طاقت رکھتا ہو۔ اب بھی امام کے لیے یہ طریقہ مستحب ہے، ضروری نہیں۔ امام مالک نے اسے ضروری خیال کیا ہے مگر وجوب کی کوئی دلیل نہیں۔ (2)”ذبح یا نحر“ گائے، بکری اور دنبہ، چھترا وغیرہ کو ذبح کیا جاتا ہے جبکہ اونٹ کو نحر۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4371
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4372
´امام کا اپنی قربانی کا جانور عیدگاہ میں ذبح کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کے دن مدینے میں اونٹ نحر (ذبح) کیا، اور جب آپ (اونٹ) نحر نہیں کرتے تو عید گاہ میں ذبح کرتے۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4372]
اردو حاشہ: گویا اونٹ کو عید گاہ میں نہ لے جاتے بلکہ اسے شہر ہی میں ذبح کر دیتے۔ چھوٹا جانور ہوتا تو ساتھ لے جاتے کیونکہ بڑے جانور کو ذبح کرنے میں دیر بھی لگتی ہے اور معاون بھی زیادہ چاہئیں، اس لیے گھر ہی بہتر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4372
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 982
982. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اونٹ یا کسی اور جانور کی قربانی عیدگاہ میں کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:982]
حدیث حاشیہ: نحراونٹ کا ہوتا ہے باقی جانوروں کو لٹا کر ذبح کرتے ہیں۔ اونٹ کو کھڑے کھڑے اس کے سینہ میں خنجر ماردیتے ہیں اس کا نام نحر ہے۔ قربانی شعائر اسلام میں ہے۔ حسب موقع ومحل بلا شبہ عید گاہ میں بھی نحر اور قربانی مسنون ہے مگر بحالات موجودہ اپنے گھروں یا مقررہ مقامات پر یہ سنت ادا کرنی چاہیے، حالات کی مناسبت کے لیے اسلام میں گنجائش رکھی گئی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 982
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5552
5552. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ذبح اور نحر عیدگاہ میں کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5552]
حدیث حاشیہ: حضرت نافع بن سرجس حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ ہیں۔ حدیث کے بارے میں شہرت یافتہ بزرگوں میں سے ہیں۔ حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ میں جب نافع کے واسطہ سے حدیث سن لیتا ہوں تو کسی اور راوی سے بالکل بے فکر ہو جاتا ہوں۔ سنہ 117ھ میں وفات پائی۔ امام مالک کی کتاب مؤطا میں زیادہ تر ان ہی کی روایات ہیں۔ رحمه اللہ رحمة واسعة۔ نافع سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کردہ حدیث مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5552
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:982
982. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اونٹ یا کسی اور جانور کی قربانی عیدگاہ میں کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:982]
حدیث حاشیہ: (1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: مسنون عمل یہی ہے کہ اونٹ یا گائے وغیرہ کو عیدگاہ میں ذبح کیا جائے اور جو کچھ لوگ اس کے خلاف کر رہے ہیں، یعنی جب عید گاہ سے واپس آ کر اپنے گھروں میں نحر و ذبح کرتے ہیں تو یہ کام غیر مسنون ہے اور ایسا سستی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (2) بلاشبہ عیدگاہ میں قربانی کرنا مسنون ہے مگر حالات و ظروف کے پیش نظر یہ سنت اپنے گھروں اور مقررہ مقامات پر بھی ادا کی جا سکتی ہے، اگرچہ بہتر ہے کہ عیدگاہ میں یہ کام کیا جائے۔ سلاطین اسلام بھی عیدگاہ ہی میں قربانی کیا کرتے تھے۔ اس میں بہت سے مصالح ہیں۔ ایک تو شعائر اسلام کا اظہار ہے، دوسرے اس میں فقراء کا نفع ہے کہ جب عیدگاہ میں قربانی ہو گی تو ضرورت کے پیش نظر کچھ گوشت گھر کے لیے جائے گا، باقی سب فقراء میں تقسیم ہو گا، نیز راستے میں محتاج لوگوں کو دیا جائے گا، تاہم گھروں میں قربانی کرنا منع نہیں کیونکہ عام طور پر آج کل سرکاری پارکوں میں نماز عید ادا کی جاتی ہے، وہاں قربانی کا جانور ذبح کر کے گندگی پھیلانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 982
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5552
5552. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ذبح اور نحر عیدگاہ میں کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5552]
حدیث حاشیہ: (1) امام مالک رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ امام کو چاہیے کہ وہ نمایاں طور پر عیدگاہ میں اپنی قربانی ذبح کرے تاکہ دوسرے لوگ اس کی اقتدا کریں۔ بعض حضرات نے اس حد تک مبالغہ کیا ہے کہ جو امام قربان گاہ میں ذبح نہیں کرتا وہ امامت یا اقتدا کے قابل نہیں ہے۔ (2) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے دو طرح سے اس حدیث کو بیان کیا ہے: ایک موقوف اور دوسری مرفوع۔ مرفوع حدیث پہلے بیان کردہ موقوف حدیث کی دلیل ہے۔ (3) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ متبع سنت کی حیثیت سے اپنی قربانی وہاں ذبح کرتے تھے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی ذبح کیا کرتے تھے۔ بہرحال مستحب یہی ہے کہ امام بالخصوص عیدگاہ میں قربانی کرے تاکہ دوسرے لوگوں کو ترغیب ہو۔ (4) عصر حاضر میں قربانی کے لیے مخصوص جگہ پر قربانی کرنا ہی بہتر ہے تاکہ ماحول صاف رہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5552