سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان سے کسی مشرک نے بطور استہزاء کے کہا: میں تمہارے ساتھی (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھتا ہوں کہ وہ تمہیں ہر چیز سکھاتے ہیں، یہاں تک کہ قضائے حاجت کے آداب بھی بتاتے ہیں! سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ نہ کریں، دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کریں، اور تین پتھر سے کم استعمال نہ کریں، ان میں کوئی گوبر ہو نہ ہڈی۔
Salman said that one of the idolaters said to him, while they were making fun of him:
"I see that your companion (the Prophet) is teaching you everything, even how to relieve yourselves?" He said: "Yes indeed. He has ordered us not to face the Qiblah (prayer direction) nor to clean ourselves with our right hands, and not to be content with anything less than three stones, which are not to include any excrement or bones."
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث316
اردو حاشہ: (1) اسلام دین فطرت ہے اس لیے اس نے انسان کی زندگی کے کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا۔ حتی کہ وہ مسائل بھی جنھیں زیر بحث لانا عام طور پر پسند نہیں کیا جاتا۔ ان میں بھی ہدایت کی ضروری تفصیل موجود ہے۔ علاوہ ازیں اسلامی تعلیمات میں نہ یہودیت کی سی ناروا سختی ہے نہ نصرانیت کی سی بے لگام اباحیت۔ بلکہ ایک حسین اعتدال موجود ہے۔
(2) غیر مسلم اقوام کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ وہ اسلام کی خوبیوں کو بھی خامیاں بنا کر پیش کرتے ہیں۔ بعض مسلمان جو ذہنی طور پر ان سے مرغوب ہوتے ہیں وہ اس کے جواب میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور تاویل یا انکار کے ذریعےسے اسلام کو ان کے غیراسلامی تصورات کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے احکام کی خوبیاں اور غیر اسلامی افکار کی خامیاں واضح کی جائیں کیونکہ اسلام ہی راہ ہدایت ہے اور کافروں کا گمراہ ہونا کسی دلیل کا محتاج نہیں۔ حضرت سلمان ؓ نے بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے انھیں مسکت جواب دیا یعنی ہمیں تو اللہ کے نبیﷺ نے بیت الخلاء کے آداب سکھائے ہیں اور یہ کوئی شرم کی بات نہیں۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ تم جیسے لوگوں کو قضائے حاجت کی بھی تمیز نہیں۔
(3) حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے جو قضائے حاجت کے چار آداب ذکر کیے ہیں۔ ان سے اسلامی تہذیب کی دوسری تہذیبوں پر برتری واضح ہے۔ اپنے اپنے قبلے کا احترام ہرمذہب کے ہاں مسلم ہے۔ لیکن اس احترام کے لیے جس طرح کی ہدایات اسلام نے دی ہیں دوسرے مذاہب میں موجود نہیں۔ عبادت کے موقع پر جس طرف منہ کیا جاتا ہے۔ قضائے حاجت کے وقت اس طرف منہ کرنے سے اجتناب اس احترام کا ایک واضح مظہر ہے۔ یہود ونصاری میں ان کے قبلے کے لیے اس قسم کے احترام کی کوئی مثال موجود نہیں۔ دائیں اور بائیں ہاتھ کو الگ الگ کا موں کے لیے مخصوص کرنا بھی اسلامی تہذیب کی ایک نمایاں خوبی ہے۔ دایاں ہاتھ کھانے پینے کے لیے مخصوص ہے اور بایاں ہاتھ صفائی سے متعلقہ امور کے لیے۔ غیر مسلموں میں اس طرح کا کوئی امتیاز نہیں۔ خاص طور پر نصاری میں تو قضائے حاجت کے بعد جسم کی صفائی کی بھی وہ اہمیت نہیں جو فطرت سلیم کا تقاضہ ہے۔ اس کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کھا لینا تہذیب سے کس قدر دور ہے یہ محتاج وضاحت نہیں۔ تین ڈھیلے استعمال کرنے کا حکم بھی صفائی کی اہمیت واضح کرتا ہے۔ یعنی قضائے حاجت کے بعد جسم کی اس قد ر صفائی ہوجا نی چاہیے کہ نجاست رہ جانے کا احتمال نہ رہے اسی طرح لید گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ مسلمان جنوں اور ان کے جانوروں کی خوراک ہے نیز غذائی اشیاء کے لیے استنجا کے لیے استعمال کرنا ایک قابل نفرت فعل ہے جسے کوئی صاحب عقل پسند نہیں کرسکتا۔ نبی اکرم ﷺ نے مسلمان جنوں سے فرمایا تھا: تمھارے لیے ہر وہ ہڈی ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو وہ تمھارے ہاتھ میں آئے گی تو بہت زیادہ گوشت والی ہوجائے گی اور ہر مینگنی تمھارے جانوروں کے لیے چارہ ہوگی۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ تمھارے بھائیوں کا طعام ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب الجھر بالقراءۃ فی الصبح والقراءۃ علی الجن، حدیث: 450)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 316
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 41
´استنجاء میں تین پتھر سے کم کا استعمال منع ہے۔` سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے (حقارت کے انداز میں) ان سے کہا: تمہارے نبی تمہیں (سب کچھ) سکھاتے ہیں یہاں تک کہ پاخانہ کرنا (بھی)؟ تو انہوں نے (فخریہ انداز میں) کہا: ہاں! آپ نے ہمیں پاخانہ اور پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے، داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے اور (استنجاء کے لیے) تین پتھر سے کم پر اکتفا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 41]
41۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ آدمی مشرک تھا اور اس نے یہ جملہ تحقیر و مذاق کے انداز میں کہا: تھا جسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کمال حکمت سے سنجیدہ انداز میں پیش فرمایا۔ جزاء اللہ أحسن الجزاء۔ ➋ مذکورہ احادیث سے جہاں یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ گوبر اور لید سے صفائی کرنا اور پھر اس غرض کے لیے دائیں ہاتھ کا استعمال ممنوع ہے۔ وہاں یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کم از کم تین پتھروں یا ڈھیلوں سے استنجا کرنا ضروری ہے، اس سے کم پتھروں سے استنجا کرنے کی ممانعت ہے، اگرچہ بسا اوقات صفائی ایک یا دو پتھروں سے بھی ممکن ہو اور یقیناًً اس تعداد کے حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے، نظافتِ مزید کی حکمت تو سمجھ میں آتی ہی ہے جبکہ حصول نظافت کی خاطر تین سے زائد ڈھیلوں کا استعمال، جب تین سے صفائی حاصل نہ ہو، حسب ضرورت مطلوب ہے۔ لیکن طاق عدد کو ملحوظ رکھا جائے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے: «ومن استجمر فلیوتر»”جو ڈھیلے استعمال کرے تو چاہیے کہ طاق استعمال کرے۔“[صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 161]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 41
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، سنن ترمذی 16
... اور گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے ہمیں منع فرمایا ہے ... [سنن ترمذي 16]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا دفاعابو سعید الحسن بن احمد بن یزید الاصطخری رحمہ اللہ (متوفی 328ھ) کے پاس ایک آدمی آیا اور پوچھا: کیا ہڈی سے استنجا جائز ہے؟
انھوں نے فرمایا: نہیں۔
اس نے پوچھا: کیوں؟
انھوں نے فرمایا: کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: یہ تمھارے بھائی جنوں کی خوراک ہے۔
اس نے پوچھا: انسان افضل ہیں یا جن؟
انھوں نے فرمایا: انسان۔
اس نے کہا: پانی کے ساتھ استنجا کیوں جائز ہے جبکہ وہ انسانوں کی خوراک ہے۔
راوی (ابوالحسین الطبسی) کہتے ہیں کہ ابو سعید الاصطخری نے حملہ کر کے اس آدمی کی گردن دبوچ لی اور اس کا گلہ گھونٹتے ہوئے فرمانے لگے: ”زندیق (بے دین، گمراہ)! تُو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رد کرتا ہے۔“ (راوی کہتے ہیں کہ) اگر میں اس آدمی کو نہ چھڑاتا تو وہ اسے قتل کر دیتے۔ (ذم الکلام واھلہ: 1258 بتحقیق عبداللہ بن محمد بن عثمان الانصاری، وسندہ حسن)
……………… اصل مضمون ………………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 567 اور 568) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 567