ابوبردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا تو ان کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانہ سے نکلتے تو کہتے: «غفرانك» یعنی: ”اے اللہ! میں تیری بخشش چاہتا ہوں“۔
Yusuf bin Abi Burdah narrated:
"I heard my father say: 'I entered upon 'Aishah, and I heard her say: "When the Messenger of Allah exited the toilet, he would say: Ghufranaka (I seek Your forgiveness).'" (Sahih) Another chain with similar wording.
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث300
اردو حاشہ: (1) قضائے حاجت سے فارغ ہو کر اللہ تعالی سے معافی مانگنے کی حکمت یہ ذکر کی گئی ہے کہ انسان اتنے عرصے تک زبان سے ذکر کرنے سے محروم رہتا ہے۔ اس فطری کوتاہی کو ادباً اپنی طرف منسوخ کرکے مغفرت کی دعا کی گئی ہے۔ یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ نجاست کا جسم سے نکل جانا بھی اللہ کی عظمت نعمت ہے۔ جس پر شکر واجب ہے۔ ہم اس کی کماحقہ ادائیگی نہیں کرسکتے اس لیے معافی کے طلبگار ہیں۔
(2) یہ دعا بیت الخلاء سے باہر آکر پڑھنی چاہیے۔ اگر میدان وغیرہ میں ہوتو فارغ ہوکر کپڑے درست کرنے کے بعد پڑھنی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 300
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 87
´قضائے حاجت سے فارغ ہو کر دعا` «. . . ان النبى صلى الله عليه وآله وسلم كان إذا خرج من الغائط قال: غفرانك . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہو کر بیت الخلاء سے باہر آتے تو «غفرانک» فرماتے اے اللہ! تیری بخشش اور پردہ پوشی مطلوب ہے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 87]
� لغوی تشریح: «غُفْرَانَكَ» «أَطْلُبُ» فعل محذوف کا مفعول بہ ہونے کی وجہ سے منصوب واقع ہوا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ میں بخشش طلب کرتا ہوں۔ یا پھر «اِغْفِرْ» فعل محذوف کا مفعول مطلق ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ مجھے بخش دے، اچھی طرح بخشنا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 87
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 30
´پاخانہ سے نکل کر آدمی کون سی دعا پڑھے؟` «. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنَ الْغَائِطِ، قَالَ: غُفْرَانَكَ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہشام دستوائی کا بیان ہے کہ لوگوں نے قتادہ سے پوچھا: کس وجہ سے سوراخ میں پیشاب کرنا ناپسندیدہ ہے؟ انہوں نے کہا: کہا جاتا تھا کہ وہ جنوں کی جائے سکونت (گھر) ہے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 30]
فوائد و مسائل: علاوہ ازیں اور بھی دعائیں آئی ہیں مگر یہ حدیث اور دعا دیگر دعاؤں کے مقابلے میں سند کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے۔ علامہ خطابی رحمہ اللہ اس دعا کی حکمت یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ یہ وقت اللہ کے ذکر کے بغیر گزرتا ہے اس لیے اس پر استغفار کی تعلیم دی گئی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 30
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 7
´بیت الخلاء (پاخانہ) سے نکلتے وقت کی دعا۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم قضائے حاجت کے بعد جب پاخانہ سے نکلتے تو فرماتے: «غفرانك» یعنی ”اے اللہ: میں تیری بخشش کا طلب گار ہوں“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 7]
اردو حاشہ: 1؎: ایسے موقع پر استغفار طلب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ”کھانا کھانے کے بعد اس کے فضلے کے نکلنے تک کی ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے بے انتہا انعامات میں سے ہیں جن کا شکر ادا کرنے سے انسان قاصر ہے، اس لیے قضائے حاجت کے بعد انسان اس کو تاہی کا اعتراف کرے، اس موقع کی دوسری دعا ”سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کر دیا اور مجھے عافیت دی“ کے معنی سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔
2؎: یہ حدیث حسن غریب ہے، یہ ایک مشکل اصطلاح ہے کیو نکہ حدیث حسن میں ایک سے زائد سند بھی ہو سکتی ہے جب کہ غریب سے مراد وہ روایت ہے جو صرف ایک سند سے آئی ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث اپنے رتبے کے لحاظ سے حسن ہے اور کسی خارجی تقویت و تائید کی محتاج نہیں، اس بات کو امام ترمذی نے غریب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے یعنی اسے حسن لذاتہ بھی کہہ سکتے ہیں، واضح رہے کہ امام ترمذی حسن غریب کے ساتھ کبھی کبھی دو طرح کے جملے استعمال کرتے ہیں، ایک ”لَانَعْرِفُهُ إِلَّامِن هٰذَا الوَجْهِ“ ہے، اور دوسرا ”وَإِسْنَادُه لَيْسَ بِمُتَّصِلْ“ پہلے جملہ سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک طریق سے وارد ہوئی ہے اور دوسرے سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، یہاں حسن سے مراد وہ حسن ہے جس میں راوی متہم بالکذب نہ ہو، اور غریب سے مراد یہاں اس کا ضعف ظاہر کرنا ہے اور ”إِسْنَادُه لَيْسَ بِمُتَّصِلْ“ کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سند میں انقطاع ہے یعنی اس کا ضعف خفیف ہے۔
3؎: یعنی اس باب میں اگرچہ اور بھی احادیث آئی ہیں لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا حدیث کے سوا کوئی حدیث قوی سند سے ثابت نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 7