(مرفوع) حدثنا ابو عمير عيسى بن محمد بن النحاس ، وعيسى بن يونس ، والحسين بن ابي السري العسقلاني ، قالوا: حدثنا ضمرة بن ربيعة ، عن ابن شوذب ، عن ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، قال: اتى رجل بقاتل وليه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اعف" فابى، فقال:" خذ ارشك"، فابى، قال:" اذهب فاقتله فإنك مثله" قال: فلحق به، فقيل له: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قال:" اقتله فإنك مثله"، فخلى سبيله قال: فرئي يجر نسعته ذاهبا إلى اهله، قال: كانه قد كان اوثقه، قال ابو عمير في حديثه: قال ابن شوذب، عن عبد الرحمن بن القاسم، فليس لاحد بعد النبي صلى الله عليه وسلم ان يقول:" اقتله فإنك مثله"، قال ابن ماجة: هذا حديث الرمليين ليس إلا عندهم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْرٍ عِيسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النَّحَّاسِ ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ العسقلاني ، قَالُوا: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ ، عَنِ ابْنِ شَوْذَبٍ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ بِقَاتِلِ وَلِيِّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اعْفُ" فَأَبَى، فَقَالَ:" خُذْ أَرْشَكَ"، فَأَبَى، قَالَ:" اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ" قَالَ: فَلُحِقَ بِهِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ:" اقْتُلْهُ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ"، فَخَلَّى سَبِيلَهُ قَالَ: فَرُئِيَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ ذَاهِبًا إِلَى أَهْلِهِ، قَالَ: كَأَنَّهُ قَدْ كَانَ أَوْثَقَهُ، قَالَ أَبُو عُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ ابْنُ شَوْذَبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولُ:" اقْتُلْهُ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ"، قَالَ ابْن مَاجَةَ: هَذَا حَدِيثُ الرَّمْلِيِّينَ لَيْسَ إِلَّا عِنْدَهُمْ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے ولی کے قاتل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے معاف کر دو“، اس نے انکار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیت لے لو“ اس نے انکار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اسے قتل کر دو اور تم بھی اسی کی طرح ہو جاؤ“۱؎ چنانچہ اس سے مل کر کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جاؤ تم اس کو قتل کر دو تم بھی اس کے مثل ہو جاؤ“ تو اس نے اسے چھوڑ دیا، قاتل کو اپنے گھر والوں کی طرف اپنا پٹا گھسیٹتے ہوئے جاتے دیکھا گیا، گویا کہ مقتول کے وارث نے اسے باندھ رکھا تھا ۱؎۔ ابوعمیر اپنی حدیث میں کہتے ہیں: ابن شوذب نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے یہ قول نقل کیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لئے «اقتله فإنك مثله» کہنا درست نہیں۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ اہل رملہ کی حدیث ہے، ان کے علاوہ کسی اور نے یہ روایت نہیں کی ہے۔
وضاحت: ۱؎: علماء نے حدیث کے اس ٹکڑے کی توضیح یوں کی ہے کہ قاتل قتل کی وجہ سے خیر سے محروم ہوا، تم بھی اس کو قصاصاً قتل کر کے خیر سے محروم ہو جاؤ گے، کیونکہ اس کو قتل کرنے سے مقتول زندہ نہیں ہو گا، ایسی صورت میں اس پر رحم کرنا ہی بہتر ہے، بعض علماء کہتے ہیں کہ اس نے قتل کی نیت سے اسے نہیں مارا تھا، اس لئے دیانۃ اس پر قصاص لازم نہیں تھا، اگرچہ قضاءاً لازم تھا، اور بعض کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق اس آدمی کو عمل کرنا چاہئے، گرچہ آپ کا فرمان بطور سفارش تھا، نہ کہ بطور حکم، اگر وہ آپ کے اس ارشاد کے خلاف کرتا تو اپنے آپ کو محرومی اور بدنصیبی کا مستحق بنا لیتا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2691
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مقتول کے وارث کو حق حاصل ہے کہ قاتل سے قصاص لے یا معاف کردے۔
(2) قتل خطا کی صورت میں قصاص لینا درست نہیں، دیت لی جا سکتی ہے یا معاف کیا جا سکتا ہے۔
(3) قتل خطا کی صورت میں قصاص لینا خود قتل کرنے کے برابر گناہ ہے۔
(4) مقتول کے وارث نے پہلے یہ لفظ نہیں سنا تھا: تو بھی اسی کی طر ح ہے، اس لیے وہ قصاص کی نیت سے لے کر چلا۔ جب ارشاد نبوی معلوم ہوا تو فوراً چھوڑا دیا۔
(5) نسعۃ سے مراد چمڑے کا پتلا اور لمبا ٹکڑا ہے جورسی کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اردو میں اسے تسمہ بھی کہتے ہیں۔
(6) حضرت عبدالرحمان بن قاسم کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے قاتل کا عذر تسلیم کرلیا تھا، اس لیے قصاص کے طور پر قتل کرنے سے منع فرمایا۔ ہم ظاہر پر عمل کے مکلف ہیں۔ اگر ایسے قرائن و دلائل موجود نہ ہوں جن سے اس کا قتل خطا ثابت ہو تو محض مجرم کے کہنے سے قتل خطا تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
(7) ”رملہ والوں کی حدیث“ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کی جو سندیں ہیں ان سب میں رملہ سے تعلق رکھتے والے راوی موجود ہیں۔ یہ حدیث کی صحت پر شک کا اظہار نہیں بلکہ اس قسم کے نکتے علمائے حدیث کی باریک بینی پر دلالت کرتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2691
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4734
´اس سلسلہ میں علقمہ بن وائل کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص اپنے آدمی کے قاتل کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے اس سے فرمایا: ”اسے معاف کر دو“، اس نے انکار کیا، تو آپ نے فرمایا: ”دیت لے لو“، اس نے انکار کیا تو آپ نے فرمایا: ”جاؤ، اسے قتل کر دو، تم بھی اسی جیسے ہو جاؤ گے (گناہ میں)“، جب وہ قتل کرنے چلا تو کوئی اس شخص سے ملا اور اس سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ”(اگر) اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4734]
اردو حاشہ: ”رسی گھسیٹتا ہوا“ گویا اس نے رسی کھولنے کا تکلف بھی نہ کیا۔ اسی طرح بھاگ اٹھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4734