سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: شفعہ کے احکام و مسائل
The Chapters on Pre-emption
4. بَابُ : طَلَبِ الشُّفْعَةِ
4. باب: شفعہ کا مطالبہ۔
Chapter: Requesting Preemption
حدیث نمبر: 2501
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد ، قال: حدثنا محمد بن الحارث ، عن محمد بن عبد الرحمن البيلماني ، عن ابيه ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا شفعة لشريك على شريك إذا سبقه بالشراء ولا لصغير ولا لغائب".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَيْلَمَانِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا شُفْعَةَ لِشَرِيكٍ عَلَى شَرِيكٍ إِذَا سَبَقَهُ بِالشِّرَاءِ وَلَا لِصَغِيرٍ وَلَا لِغَائِبٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شریک کو شریک پر اس وقت شفعہ نہیں رہتا ہے، جب وہ خریداری میں اس سے سبقت کر جائے، اسی طرح نہ کم سن (نابالغ) کے لیے شفعہ ہے، اور نہ غائب کے لیے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: مثلاً کسی جائیداد میں زید، عمر اور بکر شریک ہیں،بکر نے اپنا حصہ زید کے ہاتھ بیچ دیا، تو عمر کو زید پر شفعہ کے دعویٰ کا حق حاصل نہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7293، ومصباح الزجاجة: 887) (ضعیف جدا)» ‏‏‏‏ (سند میں محمد بن الحارث ضعیف راوی ہیں، اور محمد بن عبد الرحمن البیلمانی متہم با لکذب راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4804)

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف جدًا
انظر الحديث السابق (2500)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 469

   سنن ابن ماجه2500عبد الله بن عمرالشفعة كحل العقال
   سنن ابن ماجه2501عبد الله بن عمرلا شفعة لشريك على شريك إذا سبقه بالشراء لصغير لغائب
   بلوغ المرام764عبد الله بن عمرالشفعة كحل العقال

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2501 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2501  
اردو حاشہ:
فائدہ:
شریک پر شریک کےشفعے کا دعوی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی چیز میں تین افراد شریک ہوں اوران میں سے ایک آدمی دوسرے کا حصہ خرید لے تو تیسرے کوشفعے کا دعوی کرنے کا حق حاصل نہیں لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2501   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 764  
´شفعہ کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شفعہ رسی کھولنے کی طرح ہے۔ اسے ابن ماجہ اور بزار نے روایت کیا ہے اور بزار نے اتنا اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ غیرحاضر و غائب کے لئے شفعہ کا کوئی حق نہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 764»
تخریج:
«أخرجه ابن ماجه، الشفعة، باب طلب الشفعة، حديث:2500، والزار: لم أجده، * محمد بن الحارث متروك كما قال البيهقي وغيره، وشيخه ضعيف، والسند ضعفه البوصيري.»
تشریح:
اس حدیث میں شفعہ کو اونٹ کے بند کھولنے سے تشبیہ دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اونٹ کا زانو بند کھول دیا جائے تو وہ فوراً بھاگ نکلتا ہے‘ اسی طرح جس وقت کوئی چیز فروخت ہو یا شفعہ کرنے والے کو اس چیز کے فروخت کیے جانے کا علم ہو‘ اسی وقت بلاتاخیر شفعہ کر دے‘ ورنہ تاخیر کی صورت میں اس سے حق شفعہ جاتا رہے گا اور اس کا شفعہ قابل قبول نہیں ہوگا۔
یہ رائے احناف کی ہے۔
محدثین کے نزدیک تاخیر سے حق شفعہ باطل نہیں ہوتا کیونکہ شفعے کی احادیث مطلق ہیں اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی یہ روایت قابل استدلال نہیں ہے‘ نیز جب شفعہ کرنے والا کم سن ہو یا وہ اس وقت وہاں موجود نہ ہو تو بھی انھیں شفعہ کا استحقاق رہتا ہے جیسا کہ اوپر حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ اگر ہمسایہ اس موقع پر موجود نہ ہو تو اس کا انتظار کیا جائے۔
ظاہر ہے اگر اس کا حق شفعہ باطل ہوتا تو پھر اس کا انتظار کرنے کے کیا معنی؟ واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 764   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.