سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: ہبہ کے احکام و مسائل
The Chapters on Gifts
2. بَابُ : مَنْ أَعْطَى وَلَدَهُ ثُمَّ رَجَعَ فِيهِ
2. باب: اپنی اولاد کو کچھ دے کر واپس لینے کا بیان۔
Chapter: One Who Gives His Child A Gift Then Takes It Back
حدیث نمبر: 2378
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا جميل بن الحسن ، حدثنا عبد الاعلى ، حدثنا سعيد ، عن عامر الاحول ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يرجع احدكم في هبته إلا الوالد من ولده".
(مرفوع) حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَرْجِعْ أَحَدُكُمْ فِي هِبَتِهِ إِلَّا الْوَالِدَ مِنْ وَلَدِهِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہبہ کر کے کوئی واپس نہ لے سوائے باپ کے جو وہ اپنی اولاد کو کرے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الھبة 2 (3719)، (تحفة الأشراف: 8722)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/البیوع 83 (3540)، مسند احمد (4/182)، (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن ابن ماجه2378عبد الله بن عمرولا يرجع أحدكم في هبته إلا الوالد من ولده
   سنن النسائى الصغرى3719عبد الله بن عمرولا يرجع أحد في هبته إلا والد من ولده العائد في هبته كالعائد في قيئه

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2378 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2378  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کسی کوتحفے کےطورپرکوئی چیز دے کرواپس لینا جائزنہیں خواہ وہ تحفہ معمولی ہو یا قیمتی۔

(2)
والد اپنی اولاد کو دی ہوئی چیز واپس لےسکتا ہے۔

(3)
والدہ کا بھی یہی حکم ہے۔

(4)
بعض علماء نےنانا، نانی اوردادا، دادی کوبھی اسی حکم میں شامل کیا ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2378   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3719  
´باپ بیٹے کو دے کر واپس لے لے اس کا بیان اور اس حدیث کے راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص کسی کو کوئی چیز بطور ہبہ دے کر واپس نہیں لے سکتا، سوائے باپ کے کہ وہ اپنے بیٹے کو دے کر پھر واپس لے سکتا ہے، (سن لو) ہبہ کر کے واپس لینے والا ایسا ہی ہے جیسے کوئی قے کرے کے چاٹے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الهبة/حدیث: 3719]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث سے دومسئلے معلوم ہوتے ہیں: ٭ہبہ میں رجوع حرام ہے۔ ٭والد کے لیے رجوع جائز ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ احناف نے ان دونوں میں معاملہ الٹ دیا ہے۔ ان کے نزدیک ہبہ میں رجوع جائز ہے مگر باپ یا محرم رشتہ دار رجوع نہیں کرسکتا۔ دلیل یہ ہے کہ محرم رشتہ دار کا ہبہ صلہ رحمی ہے اور صلہ رحمی کو قطع کرنا جائز نہیں‘ بخلاف اجنبی شخص کے کہ اس کا ہبہ تو اس کی خوشی پر موقوف ہے‘ لہٰذا جب چاہے واپس لے سکتا ہے۔ تعجب ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی صحیح اور صریح حدیث کے خلاف کس دھڑلے سے عقلی ڈھکوسلے گھڑے جاسکتے ہیں‘ حالانکہ یوں بھی کہا جاسکتا تھا کہ جب کوئی چیز کسی کو ہبہ کردی جاتی تو وہ اس کی ملک بن جاتی ہے۔ کسی کی ملک سے کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر چھیننا جائز نہیں‘ لہٰذا اس کے لیے رجوع درست نہیں‘ البتہ والد اپنی اولاد کی ملک سے کسی وقت کوئی چیز بلااجازت لے سکتا ہے‘ لہٰذا اس کے لیے رجوع بھی جائز ہے۔ یہ عقلی توجیہ اس حدیث کے بھی موافق ہے: [أنتَ ومالُكَ لأبيكَ]  تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے۔ (سنن ابن ماجه‘ التجارات‘ باب ماللرجل من مال ولده‘ حدیث: 2291) (مزید دیکھیے‘ حدیث: 3732ٌ)
(2) اس کتے کی طرح ہے اور کتے سے مشابہت حرام ہے‘ لہٰذا یہ کام بھی حرام ہے۔ چونکہ احناف رجوع کو جائز سمجھتے ہیں‘ لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ کتے کے لیے قے چاٹنا کون سا حرام ہے کہ رجوع حرام ہو۔ یہ تو صریح تقبیح کے لیے ہے‘ حالانکہ آئندہ حدیث میں صراحتاً لاَ یَحِلُّ کے الفاظ ہیں۔ حدیث پر عمل کرنا ہی نجات دے گا۔ تاویلیں کسی کام نہیں آئیں گی۔
(3) ایسی چیز جو شریعت میں منع ہے اس سے نفرت دلانے کے لیے کسی قبیح چیز کی مثال دینا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3719   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.