ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مر جائے، اور اس کے پاس کسی کا مال بعینہ موجود ہو، خواہ اس کی قیمت سے کچھ وصول کیا ہو یا نہیں، وہ ہر حال میں دوسرے قرض خواہوں کے مانند ہو گا۔
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال الدارقطني (3/ 29): ”اليمان بن عدي ضعيف الحديث“ و الحديث السابق (الأصل: 2360) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 464
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2361
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر فوت ہونے والے نے کسی سے نقد رقم قرض لی ہو اور اسے استعمال کرنے سے پہلے فوت ہو جائے تو جس شخص نے یہ رقم قرض دی تھی وہ یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ پوری کی پوری رقم مجھے ملنی چاہیے کیونکہ یہ وہی نوٹ ہیں جو اس نے مجھ سے لیے تھے بلکہ یہ قرض خواہ بھی دوسرے قرض خواہوں کی طرح ہی ہے۔ اگر اوروں کو پورا قرض ملے گا تو اسے بھی اس کا پورا قرض مل جائے گا۔ اور اگر اس کارقرض ترکے میں زیادہ ہونے کی وجہ سے دوسرے قرض خواہوں کی اصل قرض سے کم وصول ہو رہا ہے تو اسے بھی اسی نسبت سے کم ادائیگی کی جائے گی۔ اس معاملے میں نقد رقم کا حکم دوسرے سامان کا نہیں جو اگر بعینہ موجود ہو تو قرض خواہ اسے لے لیتا ہے جیسے حدیث: 2359 کا فائدہ: 3 (الف) میں بیان کیا گیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2361