(مرفوع) حدثنا ابو بشر بكر بن خلف ، حدثنا ابو عاصم ، عن ابن جريج ، عن عمرو بن دينار ، ان هشام بن يحيى اخبره، ان عكرمة بن سلمة اخبره، ان اخوين من بلمغيرة اعتق احدهما ان لا يغرز خشبا في جداره، فاقبل مجمع بن يزيد ورجال كثير من الانصار، فقالوا: نشهد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يمنع احدكم جاره ان يغرز خشبة في جداره". فقال: يا اخي إنك مقضي لك علي وقد حلفت فاجعل اسطوانا دون حائطي او جداري فاجعل عليه خشبك. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، أَنَّ هِشَامَ بْنَ يَحْيَى أَخْبَرَهُ، أَنَّ عِكْرِمَةَ بْنَ سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَخَوَيْنِ مِنْ بَلْمُغِيرَةِ أَعْتَقَ أَحَدَهُمَا أَنْ لَا يَغْرِزَ خَشَبًا فِي جِدَارِهِ، فَأَقْبَلَ مُجَمِّعُ بْنُ يَزِيدَ وَرِجَالٌ كَثِيرٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَمْنَعْ أَحَدُكُمْ جَارَهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَةً فِي جِدَارِهِ". فَقَالَ: يَا أَخِي إِنَّكَ مَقْضِيٌّ لَكَ عَلَيَّ وَقَدْ حَلَفْتُ فَاجْعَلْ أُسْطُوَانًا دُونَ حَائِطِي أَوْ جِدَارِي فَاجْعَلْ عَلَيْهِ خَشَبَكَ.
عکرمہ بن سلمہ کہتے ہیں بلمغیرہ (بنی مغیرہ) کے دو بھائیوں میں سے ایک نے یہ شرط لگائی کہ اگر میری دیوار میں تم دھرن لگاؤ تو میرا غلام آزاد ہے، پھر مجمع بن یزید رضی اللہ عنہ اور بہت سے انصار آئے اور کہنے لگے: ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی (دھرن) گاڑنے سے منع نہ کرے“، یہ سن کر وہ کہنے لگا: میرے بھائی! شریعت کا فیصلہ تمہارے موافق نکلا لیکن چونکہ میں قسم کھا چکا ہوں اس لیے تم میری دیوار کے ساتھ ایک ستون کھڑا کر کے اس پر لکڑی رکھ لو ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: «بلمغیرة» یعنی «بني المغیرة» اس میں ایک لغت یہ بھی ہے۔ تاکہ تمہارا کام نکل جائے اور میرا نقصان نہ ہو، ورنہ میرا غلام آزاد ہو جائے گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11217، ومصباح الزجاجة: 808)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/479، 480) (حسن)» (سند میں ابن جریج مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور ھشام بن یحییٰ مستور لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، اور عکرمہ بن سلمہ مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: حسن لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عكرمة بن سلمة: مجھول (تقريب:4670) وأصل الحديث صحيح،انظر الحديث السابق (الأصل: 2335) وھو يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 463
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2336
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف اور معناً صحیح کہا ہے جیسا کہ انہوں نے تحقیق و تخریج میں ”اصل الحدیث صحیح “ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے علاوہ ازیں دیگر محققین نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 25/ 287، 286، وصحيح سنن ابن ماجة للألبانى، رقم: 1905) بنابریں اپنی ملکیت کی چیز کے بارے میں مشروط قسم کھانا جائز ہے مثلاً: اگر میں فلاں کام کروں تو میرا غلام آزاد ہے۔
(2) ہمسائے کو مشترک دیوار پر شہتیر وغیرہ رکھ کر چھت ڈالنے سے منع کرنا جائز ہے نہیں۔
(3) بزرگوں کو چاہیے کہ دو افراد میں پیدا ہونے والے باہمی اختلاف کو عدل وانصاف کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کریں۔
(4) صحابہ وتابعین کرام حدیث سن کر جھگڑا ختم کر دیتے تھے اور حدیث پر عمل کرتے تھے خواہ حدیث کا فیصلہ ان کے خلاف ہی ہو۔
(5) کوشش کرنی چاہیے کہ قسم کھانے والا اپنی قسم توڑنے پر مجبور نہ ہو بلکہ اپنی قسم پوری کرلے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2336