ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قاضی غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے“۱؎۔ ہشام کی روایت کے الفاظ ہیں: ”حاکم کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے“۔
وضاحت: ۱؎: نبی کریم ﷺ نے جو غصہ کی حالت میں زبیر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ایک انصاری کے ساتھ کیا تو یہ آپ ﷺ کی خصوصیت تھی کیونکہ آپ حالت غضب اور رضا دونوں میں معصوم تھے، اور ظاہر یہ ہے کہ ممانعت تحریمی ہے، اس پر جمہور علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر کوئی غصہ کی حالت میں فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ حق ہو تو صحیح ہو گا، علامہ ابن القیم کہتے ہیں کہ مفتی سخت غصہ، یا زیادہ بھوک، یا زیادہ قلق، یا پریشان کن خوف و ڈر، یا نیند کا غلبہ، یا پاخانہ پیشاب کی حاجت میں فتوی نہ دے، اسی طرح جب دل اور طرف لگا ہوا ہو، بلکہ جب آدمی یہ محسوس کرے کہ مذکورہ امور کی وجہ سے وہ اعتدال کی حالت سے باہر چلا گیا ہے، اور اس کی تحقیق و جستجو کی قدرت متاثر ہو گئی ہے، تو اس کو فتویٰ سے رک جانا چاہئے، اس پر بھی اگر وہ ان حالتوں میں فتویٰ دیتا ہے تو اس کا فتویٰ صحیح ہے لیکن اگر ایسی حالت میں فیصلہ کرتا ہے، تو کیا اس کا فیصلہ نافذ ہو گا، یا نہیں نافذ ہو گا؟ اس بارے میں امام احمد کے مذہب میں تین اقوال ہیں: پہلا یہ کہ نافذ ہو گا، دوسرا یہ کہ نافذ نہیں ہو گا، تیسرا یہ کہ مسئلہ کو سمجھنے کے بعد اگر غصہ ہو تو اس میں نافذ ہو گا، اور اگر مسئلہ کے سمجھنے سے پہلے غصہ ہو تو نافذ نہیں ہو گا۔ (ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیۃ۳/۲۳۳)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2316
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) غصے کی حالت میں انسان کی ذہنی حالت درست نہیں رہتی اور جذبات کی وجہ سے معاملات کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا ممکن نہیں رہتا اس لیے خطرہ ہوتا ہے کہ اس حالت میں دیا ہوا فیصلہ درست نہیں ہو گا۔
(2) نبی اکرمﷺ اس بات سے معصوم تھے کہ جذبات یا غصے میں غلط فیصلہ دیں اس لیے نبی ﷺ ناراضی محسوس فرما رہے تھے دیکھیے: (صحیح البخاري، الأحکام، باب ھل یقضی القاضی او یفتی وھو غضبان؟حدیث: 7159)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2316
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5408
´حاکم کو کن باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔` عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے لکھوایا تو میں نے عبیداللہ بن ابی بکرہ کے پاس لکھا وہ سجستان کے قاضی تھے، تم دو لوگوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”کوئی شخص دو لوگوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔“[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5408]
اردو حاشہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے کسی بھی شخص کو غصے کی حالت میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ جس غصے کی حالت میں حاکم اور قاضی و جج وغیرہ کو فیصلہ کرنے سے روکا گیا ہے، اس غصے سے مراد زیادہ غصہ ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو وقتی طور پر ختم کر دیتا ہے اور غلط فیصلے کا خطرہ ہوتا ہے، البتہ معمولی غصہ جوکسی مجرم کا جرم سننے سے فطرتاً آ جاتا ہے، فیصلے سے مانع نہیں۔ غصے کے علاوہ بھی جو چیز سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر اثر ڈالے، مثلاً: زیادہ بھوک، پیاس، پریشانی، بیماری اور نیند کا غلبہ وغیرہ ان کا حکم بھی غصے والا ہی ہے۔ بہتر ہے کہ فیصلہ مقدمےکی سماعت سے الگ مجلس میں لکھا جائے تا کہ وقتی جذبات اثر انداز نہ ہو سکیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5408
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3589
´غصے کی حالت میں قاضی کا فیصلہ کیسا ہے؟` ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے اپنے بیٹے کے پاس لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”غصے کی حالت میں قاضی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے۔“[سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3589]
فوائد ومسائل: فائدہ: طیش کی حالت میں انسان بالعموم حد اعتدال سے تجاوز کرجاتا ہے۔ تو اس کیفیت میں فیصلہ عین ممکن ہے کہ عدل کے خلاف ہو، لہذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ انتہائی غم۔ شدید فکرمندی۔ کسی بیماری کے سبب تکلیف۔ اور درد اور اسی طرح کی کیفیتیں جن میں یکسوئی متاثر ہو غصے پر قیاس کی جایئں گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3589
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1334
´قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔` عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے عبیداللہ بن ابی بکرہ کو جو قاضی تھے خط لکھا کہ تم غصہ کی حالت میں فریقین کے بارے میں فیصلے نہ کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”حاکم غصہ کی حالت میں فریقین کے درمیان فیصلے نہ کرے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1334]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس لیے کہ غصے کی حالت میں فریقین کے بیانات پرصحیح طورسے غوروفکرنہیں کیا جا سکتا، اسی پرقیاس کرتے ہوئے ہر اس حالت میں جوفکرانسانی میں تشویش کا سبب ہو فیصلہ کرنا مناسب نہیں اس لیے کہ ذہنی تشویش کی حالت میں صحیح فیصلہ تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1334
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:810
810- سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں۔ میرے والد نے مجھے ایک خط املاء کروایا۔ جو انہوں نے میرے بھائی کو لکھا تھا۔ جو کسی علاقے کا گورنر تھا (اس میں یہ تحریر تھا) کہ تم غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ دینا کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”ثالث کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے، وہ دو آدمیوں کے درمیان اس وقت فیصلہ دے جب وہ غصے کی حالت میں ہو۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:810]
فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ حالت غصہ میں قاضی کو فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 810
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4490
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن سے سجستان کے قاضی عبیداللہ بن ابی بکرہ کو لکھوایا کہ دو فریقوں کے درمیان فیصلہ غصہ کی حالت میں نہ کرنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: ”تم میں سے کوئی دو فریقوں کے درمیان، غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4490]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ قاضی کو اس حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، جس میں وہ صحیح غوروفکر نہ کر سکے اور اس کا مزاج اعتدال پر قائم نہ رہ سکے، مثلاً اس کو بہت زیادہ بھوک ستا رہی ہو یا پیٹ انتہائی بھرا ہو، پیاس کا غلبہ ہو، بہت زیادہ غم و حزن ہو یا بہت زیادہ خوش ہو یا اس کا دل و دماغ کسی اور مسئلہ میں الجھا ہوا ہو اور حالت غضب کی تخصیص، بقول حافظ ابن حجر اس لیے کی ہے کہ وہ نفس پر غلبہ پا لیتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے، اس لیے وہ حق سے تجاوز کر سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4490
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7158
7158. سیدنا عبدالرحمن بن ابو بکرہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ابوبکرہ ؓ نے اپنے بیٹے کو لکھا جبکہ وہ سجستان میں تھا کہ بحالت غصہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرنا کیونکہ میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: ”کوئی حاکم،بحالت غصہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7158]
حدیث حاشیہ: جج صاحبان کے لیے بہت بڑی نصیحت ہے، غصہ کی حالت میں انسانی ہوش و حواس مختلف ہوجاتے ہیں اس لیے اس حالت میں فیصلہ نہیں دینا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7158
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7158
7158. سیدنا عبدالرحمن بن ابو بکرہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ابوبکرہ ؓ نے اپنے بیٹے کو لکھا جبکہ وہ سجستان میں تھا کہ بحالت غصہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرنا کیونکہ میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: ”کوئی حاکم،بحالت غصہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7158]
حدیث حاشیہ: 1۔ غصے کی حالت میں فیصلہ کرنا یا فتوی دینا اس لیے منع ہے کہ غصے کی وجہ سے طبیعت میں تبدیلی آجاتی ہے اور حواس پوری طرح کام نہیں کرتے جبکہ فیصلہ کرنے کے لیےانسان کا ہراعتبار سے یکسو ہونا ضروری ہے۔ غصے کی حالت میں غلطی کا امکان ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں فیصلہ کرنے سے منع فرمایاہے ہر وہ چیز جس سے طبیعت میں اس قسم کی تبدیلی آجائے۔ جو سوچ بچار کو متاثر کردے مثلاً: بھوک کا غلبہ نیند کی شدت یا بیماری کی حالت وغیرہ وہ غصے کے حکم میں ہے لیکن اگر کوئی غصے کی حالت میں صحیح فیصلہ کردے تو وہ نافذ العمل ہوگا۔ 2۔ اس حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستثنیٰ ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں حق کے مطابق ہی فیصلہ کرتے تھے جیسا کہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک انصاری سے پانی کی باری کے متعلق جھگڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےغصے کی حالت میں حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔ اس کی وضاحت آئندہ حدیث میں آئے گی۔w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7158