عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پختگی ظاہر ہونے سے پہلے پھلوں کو نہ بیچو، آپ نے اس سے بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کو منع کیا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی درخت پر جو پھل لگے ہوں ان کا بیچنا اس وقت تک جائز نہیں، جب تک کہ وہ پھل استعمال کے قابل نہ ہو جائیں، موجودہ دور میں کئی سالوں کے لئے باغات بیچ لیے جاتے ہیں جب کہ نہ پھول کا پتہ ہے نہ پھل کا، یہ بالکل حرام ہے، مسلمانوں کو اس طرح کی تجارت سے بچنا چاہئے اور حدیث کے مطابق جب پھل قابل استعمال ہو تب بیچنا چاہئے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2214
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) درختوں پر لگا ہوا پھل خریدنا اور بیچنا درست ہے۔
(2) جب درختوں پر پھول آتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ پھل بہت زیادہ لگے گا لیکن ان میں سے بہت سے پھول جھڑ جاتے ہیں، اس کے بعد بسا اوقات بارش سے بھی خراب ہو جاتے ہیں۔ جو پھل ان سب آفتوں سے بچ جاتے ہیں، خریدنے والے کو اصل میں وہی ملتے ہیں، اس لیے باغ کا پھل اس وقت بیچنا چاہیے جب یہ مراحل گزر جائیں اور واضح اندازہ ہو سکے کہ اس قدر پھل حاصل ہونے کی توقع ہے۔ اسی بات کو حدیث میں ”پھل کی صلاحیت ظاہرنے“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(3) جو پھل کچے بھی استعمال ہوتے ہیں انہیں بھی اس وقت بیچنا اور خریدنا چاہیے جب وہ قابل استعمال ہو جائیں یا اس کے قریب ہو جائیں۔
(4) اگر پھل اس وقت بیچا گیا جب عام طور پر وہ خطرات کی زد سے باہر ہو جاتا ہے لیکن خلاف توقع بارش، آندھی یا زلزلے وغیرہ سے نقصان ہوگیا تو بیچنے والے کو چاہیے کہ خریدار کو قیمت میں مناسب حد تک رعایت دے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2214
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 497
´کچا پھل بیچنے کی ممانعت` «. . . 235- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها، نهى البائع والمشتري. . . .» ”. . . اور اسی سند کی ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکاندار اور گاہک دونوں کو پھلوں کے پکنے سے پہلے بیچنے اور خریدنے سے منع کیا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 497]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2194، ومسلم 49/1534، من حديث مالك به] تفقہ: ➊ دیکھئے حدیث سابق: 151 ➋ شریعت اسلامیہ میں ہر انسان کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے ضرر سے محفوظ رہیں۔ ➌ ایک چیز جو بعد میں نقصان دیتی ہے، سد ذرائع کے طور پر اس کے واقع ہونے سے پہلے منع کیا جا سکتا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 235
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4523
´پھلوں کو پختگی ظاہر ہونے سے پہلے نہ بیچنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک پختگی ظاہر نہ ہو جائے پھلوں کی بیع نہ کرو“، آپ نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو (اس سے) منع فرمایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4523]
اردو حاشہ: (1) پھل سے مقصود تو اسے پکنے کے بعد کھانا ہے نہ کہ کچے کو۔ اگر کچا پھل خریدا جائے گا تو پکنے تک اس پر کئی آفتیں آ سکتی ہیں۔ وہ سوکھ سکتا ہے، اسے کیڑا لگ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ، لہٰذا کل کلاں کو تنازع پیدا ہو سکتا ہے کہ جناب پھل تو ضائع ہو گیا۔ رقم کس چیز کی دوں؟ اس قسم کے سودے میں رقم عموماً پھل کی کٹائی کے وقت ہی دی جاتی ہے، لہٰذا ان تنازعات کے پیش نظر اس قسم کی بیع سے منع فرما دیا گیا جیسا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ بات صراحتاً فرمائی ہے، البتہ تنازع کا خطرہ نہ ہو، مثلاً: کچا پھل ہی توڑ کر استعمال کرنا ہو، جیسے کچے آم اچار کے لیے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ کچا بھی پکے کے قائم مقام ہے۔ اس کے نقصان کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔ اسی طرح غلے والی فصل کو پکنے سے پہلے نہیں بیچا جا سکتا مگر چارے والی فصل کو کچا ہی بیچا جا سکتا ہے کیونکہ اسے کچا ہی کاٹنا ہوتا ہے۔ (2) یہاں پھل پکنے سے مراد اس کی وہ کیفیت ہے جس کے بعد اس پر آفت کا احتمال نہیں رہتا، نہ یہ کہ وہ بالکل کھانے والی حالت میں ہو، مثلاً: آم جب جسامت میں پورا ہو جاتا ہے تو اسے توڑ کر کچھ مسالا لگایا جاتا ہے جس سے وہ پک جاتا ہے اور کھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ تو ایسی کیفیت میں آموں کی خرید و فروخت درست ہے اگرچہ وہ کھانے کے قابل تو مسالا لگانے سے ہوں گے۔ یہی مطلب ہے ان کی صلاحیت ظاہر ہونے کا۔ گویا پھل آفت سے محفوظ ہو تو پکنے سے پہلے بھی فروخت ہو سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4523
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4555
´پکنے سے پہلے بالی کو بیچنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کھجور کے بیچنے سے یہاں تک کہ وہ خوش رنگ ہو جائے، اور بالی کے بیچنے سے یہاں تک کہ وہ سفید پڑ جائے (یعنی پک جائے) اور آفت سے محفوظ ہو جائے۔ آپ نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو روکا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4555]
اردو حاشہ: منع کی وجہ پیچھے بیان ہو چکی ہے کہ اس میں خریدار کو نقصان کا احتمال ہے کیونکہ رنگ بدلنے سے پہلے پھل اور فصل کے بارے میں کوئی یقینی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ نا گہانی آفات کا بھی احتمال رہتا ہے۔ پھل اور فصل کی اصل صورت حال رنگ بدلنے کے بعد ہی واضح ہوتی ہے، اس لیے اس سے پہلے خریدنا منع ہے، نیز نقصان کی صورت میں تنازعات پیدا ہوں گے۔ بیچنے والا رقم کا تقاضا کرے گا۔ خریدار اپنا عذر پیش کرے گا، لہٰذا اس بکھیڑے میں پڑنے کا کیا فائدہ؟ (تفصیلات ملا حظہ فرمائیں، حدیث: 4523، 4530 میں)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4555
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3864
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کی بیع سے منع فرمایا ہے حتیٰ کہ اس کا پھل ظاہر ہو جائے اور بالیوں کی بیع سے حتیٰ کہ اس کا دانہ سخت ہو جائے اور وہ آفت سے محفوظ ہو جائے، بائع اور مشتری دونوں کو منع فرمایا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3864]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: ابن اعرابی کے نزدیک زها النخل يزهو کا معنی ہو گا اس کا پھل ظاہر ہو گیا، اور ازهي يزهي کا معنی ہو گا اس میں سرخی یا زردی پیدا ہو گئی اور جوہری کے نزدیک، زها اور ازهي دونوں کا معنی سرخی یا زردی کا ظاہر ہونا ہے۔ مقصد پکنے کی صلاحیت کا ظاہر ہونا ہے۔ عن السنبل حتي يبيض، بالی کا دانہ سخت ہو جائے اور پکنے کی صلاحیت کے ظاہر ہونے کی بنا پر آفت سے نکل جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3864
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2194
2194. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھلوں کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے انھیں فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے فروخت کرنے والے اور خریدار دونوں کو منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2194]
حدیث حاشیہ: (1) پھلوں کی قابل انتفاع ہونے سے قبل خریدو فروخت کرنا پہلے تو بطور صلاح ومشورہ تھا جیسا کہ قبل ازیں حدیث میں بیان ہوا ہے، اس کے بعد قطعی طور پر اس سے منع کردیا گیا جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔ اس کا قرینہ ایک یہ ہے: ممانعت بطور مشورہ والی روایت کے راوی، حضرت زید بن ثابت ؓ خود اپنے پھل پختہ ہونے سے پہلے فروخت نہیں کرتے تھے۔ ایسا کرنا فروخت کرنے والے کے لیے اس لیے ناجائز ہے کہ وہ اپنے بھائی کا مال باطل طریقے سے نہ کھائے۔ اور خریدار کو اس لیے منع کیا گیا کہ اپنے مال کو ضائع کرنے اور فروخت کرنے والے کے لیے باطل طریقے سے مال کھانے کا ذریعہ نہ بنے۔ (2) واضح رہے کہ ممانعت صرف پھلوں سے متعلق ہے اگر درخت فروخت کرنے مقصود ہوں تو پھلوں کے پکنے کا انتظار ضروری نہیں کیونکہ درختوں کی خریدوفروخت میں یہ پابندی نہیں ہے۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2194