عوف مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری سنتوں میں سے کسی سنت کو زندہ کیا، اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، اور اس سے عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہ ہو گی، اور جس کسی نے کوئی بدعت ایجاد کی اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ہو گا، اور اس پر عمل کرنے والوں کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہ ہو گی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بدعت ایجاد کرنے والوں اور اس کی تبلیغ و ترویج کرنے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے، جتنے لوگ ان کے بہکانے سے راہِ حق سے گمراہ ہوں گے ان کا وبال ان ہی کے سر ہو گا، «والعیاذ باللہ» ۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/العلم 16 (2677)، (تحفة الأشراف: 10776) (صحیح)» (اس حدیث کی سند میں کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی سخت ضعیف راوی ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن یہ متن ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، کما تقدم (207) اس لئے البانی صاحب نے اس کے متن کی تصحیح کر دی ہے، ملاحظہ ہو: السنة لابن أبی عاصم: 42)
Kathir bin 'Abdullah bin 'Amr bin 'Awf Al-Muzani said:
"My father told me narrating from my grandfather, that the Messenger of Allah said: 'Whoever revives a Sunnah of mine, which people then act upon, will have a reward equivalent to that of those who act upon it, without that detracting from their reward in the slightest. And whoever introduces an innovation (Bid'ah) that is acted upon, will have a burden of sins equivalent to that of those who act upon it, withot that detracting from the burden of those who act upon it in the slightest.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا ترمذي (2677) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 381
من أحيا سنة من سنتي قد أميتت بعدي فإن له من الأجر مثل من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئا من ابتدع بدعة ضلالة لا يرضاها الله ورسوله كان عليه مثل آثام من عمل بها لا ينقص ذلك من أوزار الناس شيئا
من أحيا سنة من سنتي قد أميتت بعدي فإن له من الأجر مثل أجر من عمل بها من الناس لا ينقص من أجور الناس شيئا من ابتدع بدعة لا يرضاها الله ورسوله فإن عليه مثل إثم من عمل بها من الناس لا ينقص من آثام الناس شيئا
من أحيا سنة من سنتي فعمل بها الناس كان له مثل أجر من عمل بها لا ينقص من أجورهم شيئا من ابتدع بدعة فعمل بها كان عليه أوزار من عمل بها لا ينقص من أوزار من عمل بها شيئا
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث209
اردو حاشہ: (1) مردہ سنت سے مراد وہ ثابت شدہ شرعی عمل ہے جس کو لوگوں نے جہالت یا سستی کی وجہ سے ترک کر دیا ہو، خواہ وہ فرض و واجب ہو یا مستحب و مندوب۔ اور اسے زندہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے دوبارہ معاشرے میں رواج دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ظاہر ہے کہ دعوت دینے والے کو خود بھی اس پر سختی سے عمل پیرا ہونا پڑے گا اور دوسروں کو بھی اس کی تبلیغ کرنی ہو گی۔ پھر جب لوگ اس پر تعجب کا اظہار کریں گے اور اس سے روکنے کی کوشش کریں گے تو اسقامت کا مظاہرہ کرنا ہو گا، اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔
(2) اس روایت میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو بدعات کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور مسلمانوں میں اسے رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہل علم کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کا سخت مقابلہ کریں کیونکہ بدعت سنت کی مخالف ہے، جیسے جیسے بدعت رائج ہوتی ہے لوگوں کی توجہ سنت کی طرف سے ہٹتی چلی جاتی ہے، جس کے نتیجہ میں ایک وقت وہ آتا ہے کہ سنت مردہ ہو جاتی ہے، چنانچہ اسے زندہ کرنے کے لیے نئے سرے سے محنت کرنی پڑتی ہے، چنانچہ سنتوں کو قائم رکھنے کے لیے بدعتوں کی پرزور تردید کی ضرورت ہے۔
(3) بعض ائمہ نے شواہد کی بنیاد پر اس روایت کی تصحیح کی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 209
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 168
´سنت کو زندہ کرنے کا ثواب` «. . . وَعَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُزَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «من أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ أُجُورِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً ضَلَالَةً لَا يَرْضَاهَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَا يَنْقُصُ من أوزارهم شَيْئا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .» ”. . . سیدنا بلال بن حارث مزفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری کسی ایسی سنت کو عمل کر کے زندہ کر دیا جو میرے بعد بےعملی کی وجہ سے مردہ کر کے چھوڑ دی گئی تھی تو اس زندہ کرنے والے کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ ان لوگوں کو ملے جنہوں نے اس پر عمل کیا ہے اور ان عمل کرنے والوں کے ثوابوں میں سے کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس نے گمراہی کی ایسی نئی بات نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی نہیں ہیں تو اس کو اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا کہ ان لوگوں کو ہو گا جنہوں نے اس پر عمل کیا ہے اور عمل کرنے والوں کے گناہوں میں سے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہو گی۔“ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 168]
تحقیق الحدیث اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔ اس روایت کی سند کا ایک بنیادی راوی کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف المزنی ہے جس کے بارے میں امام أحمد بن حنبل نے فرمایا: ”وہ کسی چیز کے برابر نہیں ہے۔“ الخ [كتاب العلل و معرفيه الرجال 3213ت 4922 ملخصا] ◄ امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: «ليس بشئي»”وہ کچھ چیز نہیں ہے۔“[تاريخ عثمان بن سعيد الدارمي: 713] ان کے علاوہ جمہور محدثین نے کثیر مذکور پر جرح کی ہے۔ ◄ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں: «وهو ضعيف عند الجمهور»”اور وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔“[مجمع الزوائد68/6] نيز ديكهئے مجمع الزوئد [130/6، 286] اور [فتح الباري 451/4، 19/5، 280/7] ◄ حافظ ابن حبان نے فرمایا: ”وہ سخت منکر حدیثیں بیان کرنے والا ہے، اس نے اپنے باپ سے «عن جده:» دادا کی سند کے ساتھ ایک موضوع نسخہ بیان کیا ہے۔“ الخ [كتاب المجروحين221/2] نیز ديكهئے: [حدیث 167 سابق اضواء المصابیح 158] وہ اس سخت ضعیف روایت سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ «والحمد لله»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 169
´سنت کو زندہ کرنے کا ثواب` «. . . وَرَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ . . .» ”. . . اس حدیث کو ترمذی نے اور ابن ماجہ نے کثیر بن عبداللہ بن عمرو سے اور عمرو اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 169]
تحقیق الحدیث اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔ کثیر بن عبداللہ کے حالات ديكهيے کے لیے دیکھیے مشكوة المصابيح 168
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث210
´مردہ سنت کو زندہ کرنے والے کا ثواب۔` عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص نے میری سنتوں میں سے کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ ہو چکی تھی تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، اور ان کے ثوابوں میں کچھ کمی نہ ہو گی، اور جس نے کوئی ایسی بدعت ایجاد کی جسے اللہ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے ہیں تو اسے اتنا گناہ ہو گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ہو گا، اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہو گی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 210]
اردو حاشہ: یہ حدیث ضعیف ہے، تاہم جہاں تک مردہ سنت کے زندہ کرنے پر اجروثواب کا اور اسی طرح بدعت کے ایجاد کرنے پر سخت گناہ ملنے کا تعلق ہے، وہ دوسری احادیث سے بھی ثابت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 210
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2677
´سنت کی پابندی کرنے اور بدعت سے بچنے کا بیان۔` عمرو بن عوف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث رضی الله عنہ سے کہا: ”سمجھ لو“(جان لو) انہوں نے کہا: سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”سمجھ لو اور جان لو“، انہوں نے عرض کیا: سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جس پر لوگوں نے میرے بعد عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، یہ ان کے اجروں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا، اور جس نے گمراہی کی کوئی نئی بدعت ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2677]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں کثیر ضعیف راوی ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2677