سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Chapters on Divorce
21. بَابُ : كَرَاهِيَةِ الْخُلْعِ لِلْمَرْأَةِ
21. باب: (بغیر کسی شرعی سبب کے) عورت کا خلع کا مطالبہ مکروہ ہے۔
Chapter: That Khul` is undesirable for the women
حدیث نمبر: 2055
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الازهر ، حدثنا محمد بن الفضل ، عن حماد بن زيد ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن ابي اسماء ، عن ثوبان ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايما امراة سالت زوجها الطلاق في غير ما باس، فحرام عليها رائحة الجنة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا الطَّلَاقَ فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا، تو اس پہ جنت کی خوشبو حرام ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطلاق 18 (2226)، سنن الترمذی/الطلاق 11 (1187)، (تحفة الأشراف: 2103)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/277، 283)، سنن الدارمی/الطلاق 6 (2316) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Thawban that the Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Any woman who asks her husband for a divorce when it is not absolutely necessary, the fragrance of Paradise will be forbidden to her.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   جامع الترمذي1187ثوبان بن بجددأيما امرأة سألت زوجها طلاقا من غير بأس فحرام عليها رائحة الجنة
   سنن أبي داود2226ثوبان بن بجددأيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة
   سنن ابن ماجه2055ثوبان بن بجددأيما امرأة سألت زوجها الطلاق في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2055 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2055  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  خلع کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنا سارا یا کچھ حق مہر خاوند کو دے کر اس سے طلاق لے لے۔
خاوند کے لیے جائز نہیں کہ جتنا مال اسے دے چکا ہے، یا جتنا حق مہر مقرر ہوا ہے اس سے زیادہ کا مطالبہ کرے۔

(2)
  خلع کی اس صورت میں جائز ہے جب عورت اس مرد کےنکاح میں نہ رہنا چاہتی ہواور مرد اسے صحیح طریقے سے بسانے کی خواہش مند ہو۔
اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بیوی کو تنگ کرتا ہے تاکہ وہ مجبور ہو کر خلع پرراضی ہوجائے تو یہ مرد کا عورت پر ظلم ہے۔

(3)
عورت کے لیے جائز نہیں کہ کسی معقول وجہ کے بغیر خاوند سے طلاق لینے کی کوشش کرے۔

(4)
  اگر عورت واقعی یہ محسوس کرتی ہو کہ اس کااس مرد کے ساتھ نباہ مشکل ہے تو خلع لینا جائز ہے، تاہم جس طرح مرد کو حتی الوسع طلاق سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، اسی طرح عورت کو چاہیے کہ جہاں تک خلع سےبچ کر گھر بسانا ممکن ہو، اس کی کوشش کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2055   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2226  
´خلع کا بیان۔`
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2226]
فوائد ومسائل:
اگر زوجین میں ہم آہنگی نہ رہے اور شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینے پر راضی نہ ہو جب کہ عورت اس کے پاس رہنے کے لیے تیار نہ ہو بلکہ علیحدگی پر مصر ہوتو اپنا معاملہ قاضی کے سامنے پیش کرے۔
وہ احوال واقعی کے پیش نظر عورت کے مطالبہء علیحدگی کی بناء پر عورت سے کہے کہ اپنا حق مہر واپس کرے اور پھر وہ انکے مابین عقد نکاح کو فسخ کردے۔
تو علیحدگی کی اس کیفیت کو خلع کہتے ہیں۔
طلاق شوہر کی طرف سے ہوتی ہے اور خلع میں مطالبہ بیوی کی طرف سے ہوتا ہے۔
اور قاضی اپنے فیصلہ تنسیخ کی تنفیذ کراتا ہے۔
خلع میں عدت صرف ایک حیض ہے۔
کیونکہ یہ فسخ نکاح ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2226   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.