تخریج: «أخرجه أبوداود، الطلاق، باب في من أسلم وعنده نساء أكثر من أربع أو أختان، حديث:2243، والترمذي، النكاح، حديث:1129، 1130، وابن ماجه، النكاح، حديث:1950، 1951، وأحمد"4 /232، وابن حبان(الإحسان):6 /181، حديث:4143، والدارقطني:3 /273، والبيهقي:7 /184.»
تشریح:
1.یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کفار کے نکاح قابل اعتبار ہیں اگرچہ وہ اسلامی نکاح کے مخالف ہوں۔
اور اسلام قبول کر لینے کے بعد جب تک خاوند عورت کو طلاق نہ دے وہ اس کی زوجیت کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی۔
اور اسلام قبول کرنے کے بعد تجدید نکاح کے بغیر نکاح بھی باقی رہتا ہے۔
یہ مذہب امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد اور داود رحمہم اللہ کا ہے۔
(سبل السلام) 2. جامع ترمذی میں فیروز دیلمی سے اس حدیث کے یہ الفاظ منقول ہیں:
”ان دونوں میں سے جس کا چاہو انتخاب کر لو۔
“ اس طرح یہ حدیث آنے والی حدیث کے اس اعتبار سے موافق ہوئی کہ جب کوئی نو مسلم شخص اپنی بیویوں میں سے بعض کو پسند کر لے کہ میں فلاں اور فلاں کو اپنے نکاح میں رکھنا چاہتا ہوں تو ان کا نکاح برقرار رہے گا اور باقی ماندہ بیویوں کو طلاق دیے بغیر اس کے اور ان کے مابین جدائی واقع ہو جائے گی۔
3. یہ دونوں احادیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ جدائی میں ترتیب نکاح کا کچھ اثر نہیں ہوتا ہے‘ چنانچہ مرد کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ دونوں بہنوں میں سے پہلی کو روک رکھے اور نہ یہ ضروری ہے کہ بیویوں میں سے پہلی چار کو روک رکھے بلکہ اسے اختیار ہے جسے چاہے روک لے اور جسے چاہے جدا کر دے۔
یہ دونوں احادیث احناف کے خلاف حجت ہیں۔
راویٔ حدیث: «حضرت ضحاک رحمہ اللہ»
”حا
“ پر تشدید ہے۔
«فَیْروز» ”فا
“ پر فتحہ‘
”یا
“ ساکن اور
”را
“ پر ضمہ ہے۔
عجمہ اور علمیت کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔
«اَلدَّیْلَمِي» ”دال
“ پر فتحہ ہے۔
فارس کے مشہور پہاڑ دیلم کی طرف نسبت ہے۔
ضحاک مشہور تابعی ہیں۔
ابن حبان نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔
اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور ان کی حدیث بصریوں کے ہاں پائی جاتی ہے۔
«عَنْ أَبِیہِ» ابوعبداللہ فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ۔
حِمْیَر میں فروکش ہونے کی وجہ سے انھیں حِمْیَري بھی کہا جاتا تھا۔
یہ اہل فارس سے تھے اور صنعاء کے رہنے والے تھے۔
اور یہ اس وفد میں شامل تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔
اور یہی یمن کے مدعی ٔ نبوت اسود عنسی کذّاب کے قاتل ہیں۔
انھوں نے عنسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں قتل کیا تھا اور آپ کو یہ خبر مرض الموت کے دوران میں موصول ہوئی تھی۔
ان کی وفات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی۔