(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي بكر بن ابي الجهم بن صخير العدوي ، قال: سمعت فاطمة بنت قيس ، تقول: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا حللت فآذنيني"، فآذنته فخطبها معاوية، وابو الجهم بن صخير، واسامة بن زيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما معاوية فرجل ترب لا مال له، واما ابو الجهم فرجل ضراب للنساء، ولكن اسامة"، فقالت بيدها هكذا: اسامة، اسامة، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" طاعة الله، وطاعة رسوله خير لك"، قالت: فتزوجته فاغتبطت به. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بْنِ صُخَيْرٍ الْعَدَوِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ ، تَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي"، فَآذَنَتْهُ فَخَطَبَهَا مُعَاوِيَةُ، وَأَبُو الْجَهْمِ بْنُ صُخَيْرٍ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ تَرِبٌ لَا مَالَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُو الْجَهْمِ فَرَجُلٌ ضَرَّابٌ لِلنِّسَاءِ، وَلَكِنْ أُسَامَةُ"، فَقَالَتْ بِيَدِهَا هَكَذَا: أُسَامَةُ، أُسَامَةُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" طَاعَةُ اللَّهِ، وَطَاعَةُ رَسُولِهِ خَيْرٌ لَكِ"، قَالَتْ: فَتَزَوَّجْتُهُ فَاغْتَبَطْتُ بِهِ.
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”جب تمہاری عدت گزر جائے تو مجھے خبر دینا“، آخر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی، تو انہیں معاویہ ابولجہم بن صخیر اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے شادی کا پیغام دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہے معاویہ تو وہ مفلس آدمی ہیں ان کے پاس مال نہیں ہے، اور رہے ابوجہم تو وہ عورتوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں، لیکن اسامہ بہتر ہیں“ یہ سن کر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہاتھ سے اشارہ کیا: اور کہا: اسامہ اسامہ (یعنی اپنی بے رغبتی ظاہر کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننا تمہارے لیے بہتر ہے“، فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آخر میں نے اسامہ سے شادی کر لی، تو دوسری عورتیں مجھ پر رشک کرنے لگیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس روایت سے معلوم ہوا کہ جسے پیغام دیا گیا اگر اس کی طرف سے ابھی موافقت کا اظہار نہیں ہوا ہے تو دوسرے کے لیے پیغام دینا جائز ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صلاح و مشورہ دینے میں کسی کا حقیقی اور واقعی عیب بیان کرنا جائز ہے تاکہ مشورہ لینے والا دھوکہ نہ کھائے، یہ غیبت میں داخل نہیں ہے۔
It was narrated that:
Abu Bakr bin Abu Jahm bin Sukhair Al-Adawi said: “I heard Fathima bint Qais say: 'The Messenger of Allah said to me: “When you become lawful, tell me.” So I told him.' Then Muawiyah, Abu Jahm bin Sukhair and Usamah bin Zaid proposed marriage to her. The Messenger of Allah said: 'As for Muawiyah, he is a poor man who has no money. As from Abu Jahm he is a man who habitually beats woman. But Usamah (is good).' She gestured with her hand, saying: 'Usamah, Usamah!?' The Messenger of Allah said to her: 'Obedience to Allah and obedience to His Messenger is better for you.' She said: 'So I married him and I was pleased with him.' ”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1869
اردو حاشہ: فوائدومسائل:
(1) عورت کے کسی مرد کو قبول کرنے کا فیصلہ کرلینے سے پہلے دوسرا آدمی پیغام بھیج سکتا ہے۔
(2) اگر کسی کا عیب چھپانے سے کسی مسلمان کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو تو خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ عیب ظاہر کر دیا جائے۔ یہ صورت ممنوعہ غیبت میں شمار نہیں ہوتی۔ حدیث کے راویوں پر جرح کرنے میں بھی یہی حکمت ہے کہ جو حکم رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں اسے غلطی سے شرعی حکم نہ سمجھ لیا جائے، اس لیے یہ بھی جائز ہے۔
(3) جب کوئی غلام آزاد ہو جائے تو اسلامی معاشرے میں اس کا مقام و مرتبہ دوسرے آزاد افراد سے کم تر نہیں ہوتا۔
(4) نبی ﷺ کا حکم ماننے میں فائدہ ہے اگرچہ بظاہر وہ ناگوار محسوس ہو۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اشارے کا مطلب عدم رضامندی کا اظہار تھا کیونکہ حضرت اسامہ کے والد محترم حضرت زید کچھ عرصہ غلام رہ چکے تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1869