(مرفوع) حدثنا هناد بن السري ، حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن ابي حصين ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يعتكف كل عام عشرة ايام، فلما كان العام الذي قبض فيه اعتكف عشرين يوما، وكان يعرض عليه القرآن في كل عام مرة، فلما كان العام الذي قبض فيه عرض عليه مرتين". (مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ كُلَّ عَامٍ عَشْرَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا، وَكَانَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ عُرِضَ عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دس دن کا اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۱؎ اور ہر سال ایک بار قرآن کا دور آپ سے کرایا جاتا تھا، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال دو بار آپ سے دور کرایا گیا ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: اعتکاف کے لغوی معنی روکنے اور بند کرنے کے ہیں، اور شرعی اصطلاح میں مسجد میں ایک خاص کیفیت کے ساتھ اپنے آپ کو روکنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔ ۲؎: تاکہ آخر عمر میں آپ کی امت کے لوگ آپ ﷺ کی پیروی کریں، اور عبادت میں زیادہ کوشش کریں، اور بعض نے کہا: آپ نے ایک سال پہلے رمضان کے اخیر دہے میں اپنی بیویوں کی وجہ سے اعتکاف کو ترک کیا تھا، اور شوال میں اس اعتکاف کو ادا کیا تھا، تو دوسرے رمضان میں بیس دن اعتکاف کیا گویا پہلے رمضان کے اعتکاف کی بھی قضا کی «واللہ اعلم»
It was narrated that Abu Hurairah said:
“The Prophet (ﷺ) used to observe I’tikaf for ten days every year. In the year in which he passed away, he observed I’tikaf for twenty days. And the Qur’an would be reviewed with him once every year, but in the year in which he passed away, it was reviewed with him twice.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1769
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: 01) قرآن پیش کر نے سے مراد قرآن مجید کا دور کرنا ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر سال رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جس قدر قرآن نازل ہو چکا ہوتا تھا اس کا دور کرتےتھے۔ (صحیح البخاري، الصوم، با ب أجود ما کا ن النبی ﷺ یکون فی رمضان، حدیث: 1902))
(2) آخری سا ل بیس دن اعتکاف کرنے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زندگی کے آ خری حصے میں عبادت میں زیادہ جانفشانی سے کام لیا اور اعتکاف بھی چونکہ ایک عبادت ہے اس لئے اس میں بھی اضافہ فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک عشرہ فتح مکہ کے سا ل کے اعتکا ف کی تلا فی ہو کیو نکہ فتح مکہ کا غزوہ رمضا ن 8ھ میں پیش آیا رسول اللہ ﷺ 17/ رمضا ن کو فا تحانہ طو ر پر مکہ میں دا خل ہوئے اور انیس دن مکہ مکرمہ میں قیا م پذیر رہے اس لئے اس سال اعتکاف نہیں ہو سکا چنا نچہ رمضا ن 10/ ھ میں بیس دن اعتکا ف کیا واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1769
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2466
´اعتکاف کس جگہ کرنا چاہئے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کرتے تھے، لیکن جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2466]
فوائد ومسائل: معلوم ہوا کہ وسط رمضان میں بھی اعتکاف ہو سکتا ہے۔ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قربِ اجل کا علم ہو گیا تھا اس لیے آپ عبادت میں بہت حریص ہو گئے تھے۔ اس رمضان میں جبرئیل امین علیہ السلام نے بھی آپ کے ساتھ قرآن مجید کا دو بار دَور کیا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2466
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2044
2044. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے مگر جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن اعتکاف کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2044]
حدیث حاشیہ: ابن بطال نے کہا اس سے یہ نکلتا ہے کہ اعتکاف سنت موکدہ ہے، اور ابن منذر نے ابن شہاب سے نکالا کہ مسلمانوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے اعتکاف کرنا چھوڑ دیا، حالانکہ آنحضرت ﷺ جب سے مدینہ میں تشریف لائے، تو آپ ﷺ نے وفات تک اعتکاف تر ک نہیں فرمایا تھا۔ اس سال آپ ﷺ نے بیس دن کا اعتکاف اس لیے کیا کہ آپ کو معلوم ہو گیا تھا کہ اب وفات قریب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2044
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2044
2044. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے مگر جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن اعتکاف کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2044]
حدیث حاشیہ: (1) اعتکاف کے لیے اگرچہ آخری عشرہ افضل ہے کیونکہ اس کی طاق راتوں میں شب قدر ہے لیکن یہ ضروری نہیں، اس سے پہلے بھی اعتکاف کیا جا سکتا ہے۔ آخری سال رسول اللہ ﷺ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ محدثین نے اس کی کئی ایک وجوہات لکھی ہیں: ٭ چونکہ آپ کو وفات کا علم ہو چکا تھا، اس لیے آپ نے امت کو تعلیم دینے کے لیے بیس دن کا اعتکاف کیا تاکہ وہ عمر کے آخری حصے میں عبادات میں زیادہ محنت کریں۔ ٭ حضرت جبرئیل ؑ سال میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺؑ سے قرآن کریم کا دور کرتے تھے لیکن وفات کے سال دو مرتبہ دور کیا، اس لیے آپ نے بھی اعتکاف کی مدت بڑھا دی۔ ٭ رسول اللہ ﷺ ایک سال سفر کی وجہ سے اعتکاف نہ کر سکے تھے، اس لیے آپ نے اس کی تلافی کے لیے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ ٭ بیویوں کے خیمے لگانے کی وجہ سے آپ نے رمضان کا اعتکاف ترک کر دیا تھا اگرچہ ماہ شوال میں اس کی تلافی ہو چکی تھی تاہم اسے مزید پختہ کرنے کے لیے آئندہ سال بیس دن کا اعتکاف کیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ مختلف اسباب کی بنا پر متعدد مرتبہ آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ہو، یعنی ایک دفعہ سفر کی وجہ سے اور دوسری مرتبہ قرآن کریم کے دور کرنے کی بنا پر ایسا کیا ہو۔ (فتح الباري: 362/4) لیکن حدیث کے الفاظ تعدد کے متحمل نہیں ہیں۔ واللہ أعلم (2) معتکف کی مثال اس غلام جیسی ہے جو اپنے آپ کو اپنے آقا کے آگے ڈال دے، پھر کہے کہ میں یہاں سے ہرگز نہیں جاؤں گی حتی کہ وہ مجھے معاف کر دے اور میرے گناہ بخش دے۔ (عمدةالقاري: 289/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2044