انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن چند کھجوریں کھائے بغیر عید کے لیے نہیں نکلتے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عید الفطر کے دن نماز سے پہلے کچھ کھا لینا سنت ہے، اگر کھجوریں ہوں تو بہتر ہے، ورنہ جو میسر ہو کھائے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العیدین 4 (953)، (تحفة الأشراف: 1082)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 273 (543)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/126، 232) (صحیح)» (سند میں جبارہ بن مغلس ضعیف راوی ہے، لیکن سعید بن سلیمان نے صحیح بخاری میں ان کی متابعت کی ہے)
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 387
´نماز عیدین کا بیان` سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید الفطر کیلئے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرمایا کرتے تھے اور طاق عدد میں کھجوریں کھایا کرتے تھے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے اور ایک معلق روایت میں بھی ایسا ہے اور احمد نے موصول روایت میں ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کھجوروں کو ایک ایک کر کے تناول فرماتے تھے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 387»
تخریج: «أخرجه البخاري، العيدين، باب الأكل يوم الفطرقبل الخروج، حديث:953، وأحمد:3 /126، 232، وابن ماجه، الصيام، حديث:1754، وابن خزيمة، حديث:1429.»
تشریح: اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں: 1. نماز عید کے لیے باہر جانا مسنون ہے۔ 2.نماز عیدالفطر کے لیے جانے سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں کھانی مسنون ہیں۔ 3. کھجوروں کو ایک ایک کر کے کھانا چاہیے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ زیادہ کھجوریں منہ میں ٹھونس لی جائیں۔ یہ تہذیب و اخلاق کے منافی ہے۔ اگر کسی کو کھجوریں دستیاب نہ ہو سکیں تو پھر کوئی بھی چیز کھائی جا سکتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ 4.کھجوروں کو ایک ایک کر کے کھانے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ آدمی حریص و لالچی نہ بنے‘ نیز اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وتر ہے اور وتر ہی کو پسند کرتا ہے۔ طبی اعتبار سے بھی ایک ایک کو خوب اچھی طرح چبا چبا کر لعاب دہن شامل کر کے نگلنا چاہیے تاکہ نظام انہضام میں معاون و مددگار ثابت ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 387
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 953
953. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ عیدالفطر کے دن جب تک چند کھجوریں تناول نہ فرما لیتے نماز کے لیے نہ جاتے تھے۔ حضرت انس ؓ ہی سے ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:953]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ عید الفطر میں نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں اگر میسر ہوں تو کھا لینا سنت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 953
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:953
953. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ عیدالفطر کے دن جب تک چند کھجوریں تناول نہ فرما لیتے نماز کے لیے نہ جاتے تھے۔ حضرت انس ؓ ہی سے ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:953]
حدیث حاشیہ: (1) محدثین نے عید الفطر کے موقع پر نماز سے پہلے کچھ کھانے کی حکمت اس طرح بیان کی ہے کہ جس اللہ کے حکم سے رمضان کے پورے مہینہ میں کھانا پینا بند رہا، آج جب اس کی طرف سے دن میں کھانے کا اذن ملا اور اس میں اس کی رضا اور خوشنودی معلوم ہوئی تو محتاج بندے کی طرح صبح ہوتے ہی اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا اہتمام کیا جائے، پھر اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کھجوروں کا انتخاب کرتے تھے کہ کھجور کا ایمان کے ساتھ گہرا تعلق ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اس مناسبت کا ذکر ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے موقع پر نماز سے پہلے تین، پانچ یا سات یا اس سے کم و بیش طاق مقدار میں کھجوریں استعمال کرتے تھے۔ (2) طاق کے استعمال میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف اشارہ ہے۔ (3) اگر کھجور میسر نہ ہو تو شربت نوش کرنا بھی صحیح ہے۔ (فتح الباري: 2/ 577- 578) اگر گھر میں میسر نہ آئے تو راستے میں یا عید گاہ پہنچ کر بھی کھا پی لے۔ بہرحال اس کا ترک ناپسندیدہ عمل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 953