انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، تو مدینہ میں قبر بنانے والے دو شخص تھے، ایک بغلی قبر بناتا تھا، اور دوسرا صندوقی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ہم اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرتے ہیں، اور دونوں کو بلا بھیجتے ہیں (پھر جو کوئی پہلے آئے گا، ہم اسے کام میں لگائیں گے) اور جو بعد میں آئے اسے چھوڑ دیں گے، ان دونوں کو بلوایا گیا، تو بغلی قبر بنانے والا پہلے آ گیا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بغلی قبر بنائی گئی۔
وضاحت: ۱؎: ابوطلحہ رضی اللہ عنہ لحد بناتے تھے اور عبیدہ رضی اللہ عنہ صندوقی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 739، ومصباح الزجاجة: 555)، وقد أخرجہ: مسند احمد30/139) (حسن صحیح)»
It was narrated that Anas bin Malik said:
“When the Prophet (ﷺ) died, there was a man in Al-Madinah who used to make a niche in the grave and another who used to dig graves without a niche. They said: ‘Let us pray Istikharah to our Lord and call for them both, and whichever of them comes first, we will let him do it.’ So they were both sent for, and the one who used to make the niche-grave came first, so they made a niche-grave for the Prophet (ﷺ).”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1557
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین دونوں طرح قبر بنانا جائز سمجھتے تھے۔ اس لئے دونوں کو بلایا گیا۔ اور یہ دونوں حضرات رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بھی فوت ہونے والوں کے لئے اپنےاپنے طریقے سے قبر تیار کرتے تھے۔ اگر ان میں سے کوئی طریقہ ممنوع ہوتا۔ تو رسول اللہ ﷺ منع فرما دیتے۔ مثلاً صندوقی (شق والی) قبر بنانے والے کو حکم دے دیتے کہ وہ آئندہ بغلی (لحد والی) قبر بنایا کرے۔
(2) بغلی قبر اصلی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریمﷺ کے لئے اسی انداز کی قبر پسند فرمائی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1557