ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کو ان کی قبر کے پائتانے سے سر کی طرف سے قبر میں اتارا، اور ان کی قبر پہ پانی چھڑکا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: سنت یہی ہے کہ میت کو قبر کے پائتانے سے قبر کے اندر اس طرح کھینچا جائے کہ پہلے سر کا حصہ قبر میں داخل ہو، اور قبر میں اسے دائیں پہلو لٹایا جائے، اس طرح پر کہ چہرہ قبلہ کی طرف ہو اور سر قبلہ کے دائیں ہو، اور پیر اس کے بائیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12014، ومصباح الزجاجة: 551) (ضعیف جدا)» (اس کی سند میں مندل بن علی اور محمد بن عبید اللہ بن أبی رافع بہت زیادہ منکر الحدیث ہیں، نیز ملاحظہ ہو: المشکاة: 17219)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1551
اردو حاشہ: فائدہ: مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم اس مسئلے کی بابت ایک روایت سنن ابی داؤد میں مروی ہے جسے محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔ اس میں ہے کہ حارث اعور نے وصیت کی کہ حضرت عبد اللہ بن یزید حطمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی نماز جنازہ پڑھایئں۔ چنانچہ انھوں نے جنازہ پڑھایا پھر انہیں پائنتی کی طرف سے قبر میں اُتارا اور فرمایا یہ سنت ہے۔ (سنن ابی داؤد الجنائز، باب کیف یدخل المیت قبرہ، حدیث: 3211) اسے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اورشیخ علی زئی نے صحیح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں کسی صحابی کا کسی عمل کو سنت کہنے سے رسول اللہ ﷺ کی سنت مرُاد ہوتی ہے۔ اور اسے اصطلاحاً مرفوعاً حکمی کہتے ہیں۔ نیز پانی چھڑکنے کا ذکر ہمیں کسی صحیح حدیث سے نہیں مل سکا۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1551