عبدالرحمٰن بن حمید زہری کہتے ہیں کہ میں نے سائب بن یزید سے پوچھا کہ آپ نے مکہ کی سکونت کے متعلق کیا سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجرین کو منٰی سے لوٹنے کے بعد تین دن تک مکہ میں رہنے کی اجازت ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مہاجر وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی، آپ ﷺ نے مہاجرین کو تین دن سے زیادہ مکہ میں رہنے کی اجازت نہ دی، اس حدیث کا تعلق ترجمہ باب سے معلوم نہیں ہوتا مگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب مہاجرین کو جو کہ مکہ میں مسافر تھے نبی اکرم ﷺ نے تین دن رہنے کی اجازت دی، تو معلوم ہوا کہ تین دن کی اقامت سے سفر کا حکم باطل نہیں ہوتا، پس اگر کوئی مسافر کسی شہر میں تین دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو قصر کرے، اور اس مسئلہ میں علماء کا بہت اختلاف ہے لیکن اہل حدیث نے اس کو اختیار کیا ہے کہ اگر تردد و شک کے ساتھ مسافر کو کہیں ٹھہرنے کا اتفاق ہو تو بیس دن تک قصر کرتا رہے، اس کے بعد پوری نماز ادا کرے، کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تبوک میں بیس راتوں تک کی اقامت میں قصر کا حکم دیا، اس واسطے کہ قصر حالت سفر میں مشروع تھا، اور جب اقامت کی تو سفر نہ رہا، اور اگر یقین کے ساتھ مسافر کہیں ٹھہرنے کا ارادہ کرے، تو اگر چار دن یا زیادہ کی اقامت کی نیت کرے، تو چار دن کے بعد نماز پوری پڑھے، اور جو چار دن سے کم رہنے کی نیت کرے تو قصر کرے، یہ حنبلی مذہب کا مشہور مسئلہ ہے، اور دلیل اس کی یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ذوالحجہ کی چوتھی تاریخ کی صبح کو مکہ میں تشریف لائے، اور ساتویں دن تک قیام فرمایا، اور آٹھویں تاریخ کی صبح کو نماز فجر پڑھ کر منیٰ تشریف لے گئے، اور چار دنوں میں مکہ میں قصر کرتے رہے، جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں انیس دن تک نماز قصر ادا کی (صحیح البخاری)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت کی حد چار دن نہیں ہے، سنن ابی داود (۱۲۳۵) میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تبوک میں بیس دن تک اقامت رہی، اور قصر پڑھتے رہے، مختلف احادیث میں مختلف مدتوں کے ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی تعارض کی بات ہے، رواۃ نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق بیان کیا، راجح قول یہی ہے کہ مسافر جب تک اقامت کی نیت نہ کر ے نماز کو قصر کرے اور جمع بھی، جب تک کہ اقامت کی نیت نہ کر ے اور سفر کو ختم نہ کر دے، شیخ الإسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ مسافر کے لیے قصر و افطار اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اقامت اور سکونت نہ اختیار کر لے، اور چند دن کی اقامت کی نیت سے مقیم اور مسافر کے درمیان فرق و تمیز شرع اور عرف میں غیر معروف چیز ہے۔
It was narrated that ‘Abdur-Rahman bin Humaid Az-Zuhri said:
“I asked Sa’ib bin Yazid: ‘What have you heard about staying in Makkah?’ He said: ‘I heard ‘Ala’ bin Hadrami say: “The Prophet (ﷺ) said: ‘Three (days) for the Muhajir after departing (from Mina).’”*
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1073
اردو حاشہ: فائدہ: اس سے استنباط کیاگیا ہے۔ کہ تین دن سے زیادہ کسی مقام پر ٹھرنا وہاں رہائش کے حکم میں ہے۔ مہاجرین کو دوبارہ مکہ میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہ تھی۔ تا کہ ان کی ہجرت کا ثواب قائم رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تین دن ٹھرنے کی اجازت دی۔ اس کامطلب ہے کہ تین دن ٹھرنا مقیم ہونے کے حکم میں نہیں۔ چنانچہ کوئی مسافر کسی مقام پر تین دن ٹھرے تو نماز قصرادا کرے۔ اور بعض کے نزدیک یہ مدت چار دن ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1073
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1455
´کتنے دن کی اقامت تک نماز قصر کی جا سکتی ہے؟` علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجر حج و عمرہ کے ارکان و مناسک پورے کرنے کے بعد (مکہ میں) تین دن تک ٹھر سکتا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1455]
1455۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث ائمہ ثلا ثہ (امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ) کی دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو تین دن سے زائد مکہ میں ٹھہرنے سے اسی لیے روکا ہے کہ اگر ان میں سے کو ئی تین دن سے زائد ٹھہر تا تو وہ مقیم بن جاتا اور مہاجر کو اپنی ہجرت والی جگہ میں مقیم ہونا جائز نہیں، ورنہ ہجر ت ختم ہو جائے گی۔ اس سے ثابت ہو ا کہ کسی جگہ میں تین دن تک ٹھہرنے والا تو مسا فر ہے مگر زائد ٹھہرنے والا مقیم ہے، لٰہذا وہ نماز پور ی پر ھے گا۔ باقی ر اہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں فتح پر تین دن سے زائد ٹھہرنا تو ہ فتح کی تکمیل کے لیے تھا نہ، نہ کہ زائد ازشرعی ضروریات یا وہ قصد، یعنی تر دو کی صورت میں تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1455
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2022
´مکہ میں اقامت کی مدت کا بیان۔` عبدالرحمٰن بن حمید سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو سائب بن یزید سے پوچھتے سنا: کیا آپ نے مکہ میں رہائش اختیار کرنے کے سلسلے میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے ابن حضرمی نے خبر دی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”مہاجرین کے لیے حج کے احکام سے فراغت کے بعد تین دن تک مکہ میں ٹھہرنے کی اجازت ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2022]
فوائد ومسائل: 1۔ تکمیل حج کے بعد مہاجرین مدینہ کے لئے بالخصوص پابندی تھی کہ جس شہر کو انہوں نے اللہ کی رضا کے لئے چھوڑ دیا ہے وہاں کسی طرح اقامت نہ کریں تاکہ ہجرت کے اجروثواب میں کمی نہ ہو۔
2۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اسی حدیث سے قیاس فرماتے ہیں۔ کہ مسافر اگر کہیں تین دن سے زیادہ اقامت کی نیت کرلے تو وہاں کا مقیم سمجھا جائے گا۔ اس لئے اسے نماز پوری پڑھنی چاہیے۔ (کتاب الام للشافعی رحمۃ اللہ علیہ) گویا اس فرمان نبوی ﷺسے مدت سفر کی تعین پر بھی استدلال کیا گیا ہے۔ جس کی تایئد نبی کریمﷺکےعمل سے بھی ہوتی ہے۔ (تفصیل کےلئے دیکھئے۔ مسنون نماز ازحافظ صلاح الدین یوسف)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2022
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 949
´منیٰ سے لوٹنے کے بعد مکہ اور قریش کے مہاجرین۔` علاء بن حضرمی رضی الله عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجر اپنے حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد مکے میں تین دن ٹھہر سکتا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 949]
اردو حاشہ: 1؎: پہلے منیٰ سے لوٹنے کے بعدمہاجرین کی مکہ میں اقامت جائز نہیں تھی، بعدمیں اسے جائز کردیا گیا اورتین دن کی تحدید کردی گئی، اس سے زیادہ کی اقامت اس کے لیے جائزنہیں کیونکہ اس نے اس شہرکواللہ کی رضا کے لیے چھوڑدیاہے لہذا اس سے زیادہ وہ وہاںقیام نہ کرے، ورنہ یہ اس کے واپس آجانے کے مشابہ ہوگا۔ (یہ مدینے کے مہاجرین مکہ کے لیے خاص تھا)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 949
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:867
867-عبدالرحمٰن بن حمید بیان کرتے ہیں: میں نے عمر بن عبدالعزیز کو سائب بن یزید اور ان کے ساتھیوں سے یہ دریافت کرتے ہوئے سنا۔ آپ نے مکہ مکرمہ میں قیام کے بارے میں کیا سن رکھا ہے، تو سائب بن یزید نے جواب دیا: سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ بات بتائی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”مہاجر شخص حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد تین دن تک مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:867]
فائدہ: مسافر اگر کسی مقام پر تین دن تھہرتا ہے تو اس پر سفر کے احکام جاری ہوں گے، تین دن سے زائدا قامت پرمقیم کے احکام لا گو ہوں گے۔ مہاجرین کے لیے تین دن کی وقتی اور عارضی پابندی تھی جو فتح مکہ کے بعد پابندی ختم ہوگئی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 867
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3933
3933. امام زہری ؒ بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے سنا جبکہ وہ نمر کندی کے بھانجے سائب بن یزید سے پوچھ رہے تھے کہ تم نے (مہاجر کے) مکہ میں ٹھہرنے کے متعلق کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علاء بن حضرمی ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مہاجر کو طواف وداع کے بعد تین دن تک مکہ میں رہنے کی اجازت ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3933]
حدیث حاشیہ: مہاجر سے مراد وہ مسلمان جو مکہ سے مدینہ چلے گئے تھے۔ حج پر آنے کے لئے فتح مکہ سے قبل ان کے لئے یہ وقتی حکم تھا کہ وہ حج کے بعد مکہ شریف میں تین روز قیام کر کے مدینہ واپس ہو جائیں۔ فتح مکہ کے بعد یہ سوال ختم ہو گیا تفصیل کے لئے فتح الباری دیکھئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3933
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3933
3933. امام زہری ؒ بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے سنا جبکہ وہ نمر کندی کے بھانجے سائب بن یزید سے پوچھ رہے تھے کہ تم نے (مہاجر کے) مکہ میں ٹھہرنے کے متعلق کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علاء بن حضرمی ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مہاجر کو طواف وداع کے بعد تین دن تک مکہ میں رہنے کی اجازت ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3933]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت علاء ایک جلیل القدر اور مستجاب الدعوات صحابی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں بحرین کا حاکم بنایا۔ ان کا نام عبد اللہ بن عماد ہے بنو امیہ کے حلیف تھے حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں فوت ہوئے۔ صحیح بخاری میں ان سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔ (فتح الباري: 333/7) 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسافر اگر کسی مقام پر تین دن تک پڑاؤں کرتا ہے تواس پر احکام سفر جاری رہیں گے۔ تین دن سے زائد پڑاؤ پر اقامت کے احکام لاگو ہوں گے۔ 3۔ واضح رہے کہ مہاجرین کے لیے یہ وقتی حکم تھا کہ وہ حج کی ادائیگی کے بعد مکے میں تین روز تک قیام کریں اس کے بعد وہ مدینہ طیبہ واپس ہو جائیں فتح مکہ کے بعد یہ پابندی ختم ہو گئی۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3933