صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
نماز میں جائز گفتگو ، دعا ، ذکر اور رب عزوجل سے مانگنے اور اس سے مشابہ اور اس جیسے ابواب کا مجموعہ ۔
547. (305) بَابُ ذِكْرِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ جَهْلًا مِنَ الْمُتَكَلِّمِ
547. نماز میں ناواقفیت کی بنا پر گفتگو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: Q859
Save to word اعراب
والدليل على ان الكلام لا يقطع الصلاة إذا لم يعلم المتكلم ان الكلام في الصلاة محظور غير مباح وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْكَلَامَ لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الْمُتَكَلِّمُ أَنَّ الْكَلَامَ فِي الصَّلَاةِ مَحْظُورٌ غَيْرُ مُبَاحٍ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ اگر گفتگو کرنے والے کو معلوم نہ ہو کہ نماز میں گفتگو کرنا منع ہے تو اس کی گفتگو سے نماز نہیں ٹوٹتی

تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 859
Save to word اعراب
نا بندار ، نا يحيى ، حدثنا الحجاج وهو الصواف ، عن يحيى بن ابي كثير ، ح وحدثنا ابو هاشم زياد بن ايوب ، نا إسماعيل بن علية، حدثني الحجاج بن ابي عثمان ، حدثني يحيى بن ابي كثير ، ح وحدثنا محمد بن هشام ، حدثنا إسماعيل ، حدثني الحجاج ، عن يحيى بن ابي كثير ، ح وحدثنا محمد بن عبد الله بن ميمون ، حدثنا الوليد يعني ابن مسلم ، عن الاوزاعي ، عن يحيى ، وحدثنا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا بشر يعني ابن بكر ، عن الاوزاعي ، حدثني يحيى ، عن هلال بن ابي ميمونة ، حدثني عطاء بن يسار ، حدثنا معاوية بن الحكم السلمي ، ح وحدثنا زياد بن ايوب ، ثناه بشر يعني ابن إسماعيل الحلبي ، عن الاوزاعي ، عن يحيى بن ابي كثير ، حدثني هلال بن ابي ميمونة ، حدثني عطاء بن يسار ، حدثني معاوية بن الحكم السلمي ، قال: قلت: يا رسول الله، إنا كنا حديث عهد بجاهلية، فجاء الله بالإسلام، وإن رجالا منا يتطيرون، قال:" ذلك شيء يجدونه في صدورهم، فلا يصدنهم" قال: يا رسول الله، رجال ياتون الكهنة، قال:" فلا تاتوهم" قال: يا رسول الله رجال منا يخطون، قال:" كان نبي من الانبياء يخط فمن وافق خطه فذاك" قال: وبينما انا اصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ عطس رجل من القوم، فقلت له: يرحمك الله، فحدقني القوم بابصارهم، فقلت: واثكل امياه، ما لكم تنظرون إلي، قال: فضرب القوم بايديهم على افخاذهم، فلما رايتهم يصمتونني لكني سكت، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم دعاني، فبابي هو وامي، ما رايت معلما قط قبله ولا بعده احسن تعليما منه، والله ما ضربني، ولا كهرني، ولا شتمني، ولكن قال:" إن صلاتنا هذه لا يصلح فيها شيء من كلام الناس، إنما هي التكبير، والتسبيح، وتلاوة القرآن" هذا لفظ حديث ميسرة، قال بندار: بينما انا اصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهكذا قال الباقون. وقال بندار: فلما رايتهم يصمتوني، لكني سكت. قال ابو بكر: خرجت في التصنيف الكبير حديث الباقين في عقب حديث بندار بمثله، ولم اخرج الفاظهمنَا بُنْدَارٌ ، نَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ وَهُوَ الصَّوَّافُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو هَاشِمٍ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، نَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنِي الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنِي الْحَجَّاجُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ يَحْيَى ، وَحَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ بَكْرٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى ، عَنْ هِلالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ الْحَكَمِ السُّلَمِيُّ ، ح وَحَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، ثناهُ بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ الْحَلَبِيَّ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي هِلالُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ الْحَكَمِ السُّلَمِيُّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا حَدِيثَ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، فَجَاءَ اللَّهُ بِالإِسْلامِ، وَإِنَّ رِجَالا مِنَّا يَتَطَيَّرُونَ، قَالَ:" ذَلِكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ، فَلا يَصُدَّنَّهُمْ" قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رِجَالٌ يَأْتُونَ الْكَهَنَةَ، قَالَ:" فَلا تَأْتُوهُمْ" قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رِجَالٌ مِنَّا يَخُطُّونَ، قَالَ:" كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ" قَالَ: وَبَيَّنَما أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ لَهُ: يَرْحَمُكُ اللَّهُ، فَحَدَّقَنِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهُ، مَا لَكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ، قَالَ: فَضَرَبَ الْقَوْمُ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يَصْمُتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي، فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَطُّ قَبْلَهُ وَلا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، وَاللَّهِ مَا ضَرَبَنِي، وَلا كَهَرَنِي، وَلا شَتَمَنِي، وَلَكِنْ قَالَ:" إِنَّ صَلاتَنَا هَذِهِ لا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هِيَ التَّكْبِيرُ، وَالتَّسْبِيحُ، وَتِلاوَةُ الْقُرْآنِ" هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ مَيْسَرَةَ، قَالَ بُنْدَارٌ: بَيْنَمَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَكَذَا قَالَ الْبَاقُونَ. وَقَالَ بُنْدَارٌ: فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يَصْمُتُونِي، لَكِنِّي سَكَتُّ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَرَّجْتُ فِي التَّصْنِيفِ الْكَبِيرِ حَدِيثَ الْبَاقِينَ فِي عَقِبِ حَدِيثِ بُنْدَارٍ بِمِثْلِهِ، وَلَمْ أُخَرِّجْ أَلْفَاظَهُمْ
سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، ہم نئے نئے جاہلیت سے نکلے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ اسلام کی نعمت لے آئے، اور بیشک ہم میں کچھ لوگ بدشگونی لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ چیز ہے جسے وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں تو یہ اُن کو (ان کے کاموں سے) ہرگز نہ روکے۔ انہوں نے عرض کی کہ اللہ کے رسول، کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اُن کے پاس مت جاؤ۔ وہ کہنے لگے کہ اے اﷲ کے رسول، ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں لگاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ایک نبی لکیریں لگاتے تھے تو جس کی لکیر اُن کی لکیروں کے موافق ہوجائیں تو وہ درست ہے (اس میں کوئی حرج نہیں) سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس اثنا میں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے ایک شخص نے چھینک ماری تو میں نے اسے کہا «‏‏‏‏يَرحَمُكَ الله» ‏‏‏‏ اللہ تجھ پر رحم فرمائے تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا تو میں نے کہا کہ ہائے میری ماں مجھے روئے (یعنی میں مر جاؤں) تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟ وہ کہتے ہیں تو لوگوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے شروع کر دیے، تو جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرارہے ہیں تو میں خاموش ہوگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر تعلیم دینے والا معلم نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مجھے مارا، نہ جھڑکا اور نہ برا بھلا کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک ہماری اس نماز میں لوگوں کی بات چیت درست نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو تکبیر، تسبیح اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا نام ہے۔ یہ میسرہ کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جناب بندار کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔ اسی طرح دیگر راویوں نے بیان کیا ہے ـ اور بندار کہتے ہیں کہ پھر جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا ـ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے التصنیف الکبیر میں باقی راویوں کی حدیث بھی بندار کی روایت کے مثل بیان کر دی ہے مگر میں نے ان کے الفاظ بیان نہیں کیے۔

تخریج الحدیث:


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.