والدليل على ان الكلام لا يقطع الصلاة إذا لم يعلم المتكلم ان الكلام في الصلاة محظور غير مباح وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْكَلَامَ لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الْمُتَكَلِّمُ أَنَّ الْكَلَامَ فِي الصَّلَاةِ مَحْظُورٌ غَيْرُ مُبَاحٍ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ اگر گفتگو کرنے والے کو معلوم نہ ہو کہ نماز میں گفتگو کرنا منع ہے تو اس کی گفتگو سے نماز نہیں ٹوٹتی
سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، ہم نئے نئے جاہلیت سے نکلے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ اسلام کی نعمت لے آئے، اور بیشک ہم میں کچھ لوگ بدشگونی لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ چیز ہے جسے وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں تو یہ اُن کو (ان کے کاموں سے) ہرگز نہ روکے۔“ انہوں نے عرض کی کہ اللہ کے رسول، کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اُن کے پاس مت جاؤ۔“ وہ کہنے لگے کہ اے اﷲ کے رسول، ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں لگاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ایک نبی لکیریں لگاتے تھے تو جس کی لکیر اُن کی لکیروں کے موافق ہوجائیں تو وہ درست ہے (اس میں کوئی حرج نہیں) سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس اثنا میں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے ایک شخص نے چھینک ماری تو میں نے اسے کہا «يَرحَمُكَ الله» ”اللہ تجھ پر رحم فرمائے“ تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا تو میں نے کہا کہ ہائے میری ماں مجھے روئے (یعنی میں مر جاؤں) تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟ وہ کہتے ہیں تو لوگوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے شروع کر دیے، تو جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرارہے ہیں تو میں خاموش ہوگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر تعلیم دینے والا معلم نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مجھے مارا، نہ جھڑکا اور نہ برا بھلا کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک ہماری اس نماز میں لوگوں کی بات چیت درست نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو تکبیر، تسبیح اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا نام ہے۔“ یہ میسرہ کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جناب بندار کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔ اسی طرح دیگر راویوں نے بیان کیا ہے ـ اور بندار کہتے ہیں کہ پھر جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا ـ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے ”التصنیف الکبیر“ میں باقی راویوں کی حدیث بھی بندار کی روایت کے مثل بیان کر دی ہے مگر میں نے ان کے الفاظ بیان نہیں کیے۔