والدليل على ان الزجر عن الصلاة في الثوب الواحد ليس على عاتق المصلي منه شيء، إذا كان الثوب واسعا، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد اباح الصلاة في الثوب الواحد الضيق إذا شده المصلي على حقوه. وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الزَّجْرَ عَنِ الصَّلَاةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى عَاتِقِ الْمُصَلِّي مِنْهُ شَيْءٌ، إِذَا كَانَ الثَّوْبُ وَاسِعًا، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَبَاحَ الصَّلَاةَ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ الضَّيِّقِ إِذَا شَدَّهُ الْمُصَلِّي عَلَى حَقْوِهِ.
حضرت نافع کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا، کیا میں نے تمہیں دو کپڑے پہننے کے لئے نہیں دیئے تھے؟ میں نے عرض کی ضرور دیئے تھے۔ اُنہوں نے فرمایا، تمہارا کیا خیال ہے کہ میں کسی کام کے لیے بھیجوں تو کیا تم ایک ہی کپڑے میں جاؤ گے؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اُنہوں نے فرمایا، اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اُس کے لئے زیب و زینت اختیار کرو۔ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”جب تم میں سے کسی شخص کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ اُسے اپنی کمر کے ساتھ باندھ لے اور یہودیوں کی طرح اُس میں نہ لپٹے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت بھی مجمل اور غیر مفسر ہے۔ جس کپڑے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمر کے ساتھ باندھنے کا حُکم دیا ہے وہ کُھلے اور وسیع کی بجائے تنگ کپڑا ہے۔ اور ان دو مجمل حدیثوں کی تفسیر کرنے والی روایت درج ذیل ہے۔