7. وضو میں «عَضُدَين» (کندھے اور کہنی کے درمیان کے حصے تک بازو) دھو کر تجیل کو لمبا کرنا مستحب ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم (پر عمل کرنے) کی وجہ سے قیامت کے روز (مؤمن کا) زیور وضو کے مقامات تک پہنچے گا
ابوحازم رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تو وہ وضو کے پانی کو اپنی بغلوں تک پہنچا رہے تھے۔ میں نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”بلاشبہ (مومن) کا زیور وضو کے مقامات تک پہنچے گا۔“(اس لیے میں پانی کو بغلوں تک پہنچا رہا ہوں۔)
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الطهارة باب تبلغ الحلية حيث يبلغ الوضوء، رقم: 250، سنن نسائي، رقم: 149، مسند احمد، رقم: 371/2، ابن حبان رقم: 1045 - من طريق على بن مسهر»
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 7
فوائد:
یہ حدیث دلیل ہے کہ جہاں تک اعضائے وضو کو وضو کا پانی پہنچے گا، اعضائے وضو کا اتنا حصہ روزِ قیامت روشن ہو گا لیکن اس سے یہ استدلال کرنا کہ اعضاء دھونے میں اعضائے وضو کی مقررہ حد سے تجاوز کیا جائے درست نہیں۔ تا ہم صحابہ کرام جس قدر اعضاء کو دھوتے تھے اس قدر اعضاء کو دھو کر چمک کو زیادہ کیا جا سکتا ہے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 7