368. ان لوگوں کے گمان کے برخلاف دلیل کا بیان جو کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ ہجرت کرنے کے بعد مفصل سورتوں میں سجدہ تلاوت نہیں کیا
نا الربيع بن سليمان المرادي ، نا شعيب يعني ابن الليث ، نا الليث ، عن بكر بن عبد الله ، عن نعيم بن عبد الله المجمر ، انه قال: صليت مع ابي هريرة فوق هذا المسجد، فقرا: إذا السماء انشقت فسجد فيها، وقال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم سجد فيها" . قد خرجت طرق هذا الخبر في كتاب الصلاة، كتاب الكبير، من قال عن ابي هريرة: رايت النبي صلى الله عليه وسلم، او سجدت مع النبي صلى الله عليه وسلم في إذا السماء انشقت. قال ابو بكر: وابو هريرة إنما قدم على النبي صلى الله عليه وسلم، فاسلم بعد الهجرة بسنين، قال في خبر عراك بن مالك، عن ابي هريرة: قدمت المدينة والنبي صلى الله عليه وسلم بخيبر قد استخلف على المدينة سباع بن عرفطة، وقال قيس بن ابي حازم: سمعت ابا هريرة، يقول: صحبت النبي ثلاث سنوات، وقد اعلم انه راى النبي صلى الله عليه وسلم سجد في إذا السماء انشقت، و اقرا باسم ربك الذي خلق، وقد اعلمت في غير موضع من كتبنا ان المخبر والشاهد الذي يجب قبول شهادته وخبره من يخبر بكون الشيء، ويشهد على رؤية الشيء وسماعه، لا من ينفي كون الشيء وينكره، ومن قال: لم يفعل فلان كذا ليس بمخبر ولا شاهد، وإنما الشاهد من يشهد، ويقول: رايت فلانا يفعل كذا، وسمعته يقول كذا، وهذا لا يخفى على من يفهم العلم والفقه، وقد بينت هذه المسالة في غير موضع من كتبنا. وتوهم بعض من لم يتبحر العلم ان خبر الحارث بن عبيد، عن مطر، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يسجد في شيء من المفصل منذ تحول إلى المدينة حجة من زعم ان لا سجود في المفصل، وهذا من الجنس الذي اعلمت ان الشاهد من يشهد برؤية الشيء او سماعه لا من ينكره ويدفعه، وابو هريرة قد اعلم انه قد راى النبي صلى الله عليه وسلم، قد سجد في إذا السماء انشقت، و اقرا باسم ربك الذي خلق بعد تحوله إلى المدينة، إذ كانت صحبته إياه إنما كان بعد تحول النبي صلى الله عليه وسلم إلى المدينة لا قبلنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ ، نا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ اللَّيْثِ ، نا اللَّيْثُ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَوْقَ هَذَا الْمَسْجِدِ، فَقَرَأَ: إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ فَسَجَدَ فِيهَا، وَقَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِيهَا" . قَدْ خَرَّجْتُ طُرُقَ هَذَا الْخَبَرِ فِي كِتَابِ الصَّلاةِ، كِتَابِ الْكَبِيرِ، مَنْ قَالَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ سَجَدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَأَبُو هُرَيْرَةَ إِنَّمَا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمَ بَعْدَ الْهِجْرَةِ بِسِنِينَ، قَالَ فِي خَبَرِ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: قَدِمَتُ الْمَدِينَةَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَيْبَرَ قَدِ اسْتَخْلَفَ عَلَى الْمَدِينَةِ سِبَاعَ بْنَ عُرْفُطَةَ، وَقَالَ قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: صَحِبْتُ النَّبِيَّ ثَلاثَ سَنَوَاتٍ، وَقَدْ أَعْلَمَ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِي إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ، وَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ، وَقَدْ أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ الْمُخْبِرَ وَالشَّاهِدَ الَّذِي يَجِبُ قَبُولُ شَهَادَتِهِ وَخَبَرِهِ مَنْ يُخْبِرُ بِكَوْنِ الشَّيْءِ، وَيَشْهَدُ عَلَى رُؤْيَةِ الشَّيْءِ وَسَمَاعِهِ، لا مَنْ يَنْفِي كَوْنَ الشَّيْءِ وَيُنْكِرُهُ، وَمَنْ قَالَ: لَمْ يَفْعَلْ فُلانٌ كَذَا لَيْسَ بِمُخْبِرٍ وَلا شَاهِدٍ، وَإِنَّمَا الشَّاهِدُ مَنْ يَشْهَدُ، وَيَقُولُ: رَأَيْتُ فُلانًا يَفْعَلُ كَذَا، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ كَذَا، وَهَذَا لا يَخْفَى عَلَى مَنْ يَفْهَمُ الْعِلْمَ وَالْفِقْهَ، وَقَدْ بَيَّنْتُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا. وَتَوَهَّمَ بَعْضُ مَنْ لَمْ يَتَبَحَّرِ الْعِلْمَ أَنَّ خَبَرَ الْحَارِثِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسْجُدْ فِي شَيْءٍ مِنَ الْمُفَصَّلِ مُنْذُ تُحَوَّلَ إِلَى الْمَدِينَةِ حُجَّةُ مَنْ زَعَمَ أَنْ لا سُجُودَ فِي الْمُفَصَّلِ، وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ أَنَّ الشَّاهِدَ مَنْ يَشْهَدُ بِرُؤْيَةِ الشَّيْءِ أَوْ سَمَاعِهِ لا مَنْ يُنْكِرُهُ وَيَدْفَعُهُ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّهُ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ سَجَدَ فِي إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ، وَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ بَعْدَ تَحَوُّلِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ، إِذْ كَانَتْ صُحْبَتُهُ إِيَّاهُ إِنَّمَا كَانَ بَعْدَ تَحَوُّلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ لا قَبْلُ
جناب نعیم بن عبداللہ المجمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس مسجد کے اوپر نماز پڑھی تو اُنہوں نے «إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ» [ سورة الإنشقاق ] پڑھی اور اُس میں (آیت سجدہ پر) سجدہ کیا۔ (نماز مکمّل کرنے کے بعد فرمایا) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (امام صاحب فرماتے ہیں) میں نے اس حدیث کے طرق كتاب الكبير کی كتاب الصلاة میں بیان کیے ہیں۔ جس میں راوی نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ فرماتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (اس سورت میں سجدہ کرتے) دیکھا یا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ «إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ» [ سورة الإنشقاق ] میں سجدہ کیا۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہجرت کے کئی سال بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے ہیں، جناب عراک بن ملاک کی روایت میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں مدینہ منوّرہ آیا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تھے، آپ نے سباع بن عرفطہ کو مدینہ منوّرہ میں اپنا جانشین بنا یا تھا۔ سیدنا بن ابی حازم فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہر یرہ رضی اللہ عنہ کوفرماتے ہوئے سنا کہ میں نے تین سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں گزارے۔ اور اُنہوں نے بیان فرمایا ہے کہ اُنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ «إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ» [ سورة الإنشقاق ] اور «اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ» [ سورة العلق ] میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے اپنی کتابوں میں بہت سارے مقامات پر بیان کیا ہے کہ بیشک وہ مخبر اور شاہد جس کی شہادت اور خبر قبول کرنا واجب اور ضروری ہے وہ، وہ ہے جو کسی چیز کے ہونے کی خبر دے یا کسی چیز کو دیکھنے اور سننے کی گواہی دے نہ کہ وہ شخص جو کسی چیز کے ہونے کی نفی کرے اور اس کا انکار کرے۔ اور جو شخص کہے فلاں شخص نے یہ کام نہیں کیا۔ تو یہ شخص نہ تو مخبر ہے اور نہ شاہد، بلاشبہ شاہد وہ شخص ہے جو گواہی دے اور کہے کہ میں نے فلاں شخص کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے اسے ایسے ایسے کہتے ہوئے سنا ہے۔ اور یہ بات صاحب علم اور فہم و فراست والے شخص پر مخفی نہیں ہے۔ میں نے یہ مسئلہ اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر بیان کیا ہے۔ اور بعض کم علم لوگوں کو جناب حارث بن عبید کی روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ کی طرف ہجرت کے بعد مفصل سورتوں میں سجدہ نہیں کیا، سے وہم ہوا ہے کہ یہ ان لوگوں کی دلیل ہے جو گمان کرتے ہیں کہ مفصل سورتوں میں سجدہ نہیں ہے۔ اور یہ اسی قبیل سے ہے جسے میں نے بیان کیا ہے کہ شاید وہ ہوتا ہے جو کسی چیز کو دیکھنے یا سننے کی گواہی دے، نہ کہ وہ شخص جو اس کا انکار اور رد کرے۔ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ «إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ» [ سورة الإنشقاق ] اور «اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ» [ سورة العلق ] میں ہجرت مدینہ کے بعد سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کیونکہ وہ آپ کی صحبت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منوّرہ کی طرف ہجرت کے بعد رہے ہیں نہ کہ ہجرت سے پہلے۔