صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
ایسے افعال کا مجموعہ جو وضو کو واجب نہیں کرتے
27. ‏(‏27‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الْخَبَرِ الدَّالِّ عَلَى أَنَّ خُرُوجَ الدَّمِ مِنْ غَيْرِ مَخْرَجِ الْحَدَثِ لَا يُوجِبُ الْوُضُوءَ
27. اس حدیث کا بیان جو اس بات کی دلیل ہے کہ پیشاب یا پاخانے کی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ سے خون کا نکلنا وضو واجب نہیں کرتا
حدیث نمبر: 36
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن العلاء بن كريب الهمداني ، حدثنا يونس بن بكير ، حدثنا محمد بن إسحاق ، حدثني صدقة بن يسار ، عن ابن جابر ، عن جابر بن عبد الله . ح وحدثنا محمد بن عيسى ، حدثنا سلمة يعني ابن الفضل ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني صدقة بن يسار ، عن عقيل بن جابر ، عن جابر بن عبد الله ، قال:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة ذات الرقاع من نخل، فاصاب رجل من المسلمين امراة رجل من المشركين، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم قافلا، اتى زوجها وكان غائبا، فلما اخبر الخبر حلف لا ينتهي حتى يهريق في اصحاب محمد دما، فخرج يتبع اثر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنزل رسول الله منزلا، فقال: من رجل يكلؤنا ليلتنا هذه؟ فانتدب رجل من المهاجرين ورجل من الانصار، فقالا: نحن يا رسول الله؟ قال: فكونا بفم الشعب، قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه قد نزلوا إلى الشعب من الوادي، فلما ان خرج الرجلان إلى فم الشعب، قال الانصاري للمهاجري: اي الليل احب إليك ان اكفيكه، اوله او آخره؟ قال: بل اكفني اوله، قال: فاضطجع المهاجري، فنام، وقام الانصاري يصلي، قال: واتى زوج المراة، فلما راى شخص الرجل عرف انه ربيئة القوم، قال: فرماه بسهم فوضعه فيه، قال: فنزعه فوضعه وثبت قائما يصلي، ثم رماه بسهم آخر فوضعه فيه، قال: فنزعه فوضعه وثبت قائما يصلي، ثم عاد له الثالثة فوضعه فيه فنزعه فوضعه، ثم ركع وسجد ، ثم اهب صاحبه، فقال: اجلس فقد اثبت فوثب، فلما رآهما الرجل عرف انه قد نذر به، فهرب، فلما راى المهاجري ما بالانصاري من الدماء، قال: سبحان الله، افلا اهببتني اول ما رماك؟ قال: كنت في سورة اقراها، فلم احب ان اقطعها حتى انفدها، فلما تابع علي الرمي ركعت فاذنتك، وايم الله لولا ان اضيع ثغرا امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم بحفظه، لقطع نفسي قبل ان اقطعها او انفدها". هذا حديث محمد بن عيسىحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ ، عَنِ ابْنِ جَابِرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ ، عَنْ عُقَيْلِ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ مِنْ نَخْلٍ، فَأَصَابَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ امْرَأَةَ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَافِلا، أَتَى زَوْجُهَا وَكَانَ غَائِبًا، فَلَمَّا أُخْبِرَ الْخَبَرَ حَلَفَ لا يَنْتَهِي حَتَّى يُهَرِيقَ فِي أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ دَمًا، فَخَرَجَ يَتْبَعُ أَثَرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ مَنْزِلا، فَقَالَ: مَنْ رَجُلٌ يَكْلَؤُنَا لَيْلَتَنَا هَذِهِ؟ فَانْتَدَبَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَرَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالا: نَحْنُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: فَكُونَا بِفَمِ الشِّعْبِ، قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ قَدْ نَزَلُوا إِلَى الشِّعْبِ مِنَ الْوَادِي، فَلَمَّا أَنْ خَرَجَ الرَّجُلانِ إِلَى فَمِ الشِّعْبِ، قَالَ الأَنْصَارِيُّ لِلْمُهَاجِرِيِّ: أَيُّ اللَّيْلِ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَنْ أَكْفِيَكَهُ، أَوَّلَهُ أَوْ آخِرَهُ؟ قَالَ: بَلِ اكْفِنِي أَوَّلَهُ، قَالَ: فَاضْطَجَعَ الْمُهَاجِرِيُّ، فَنَامَ، وَقَامَ الأَنْصَارِيُّ يُصَلِّي، قَالَ: وَأَتَى زَوْجُ الْمَرْأَةِ، فَلَمَّا رَأَى شَخْصَ الرَّجُلِ عَرَفَ أَنَّهُ رَبِيئَةُ الْقَوْمِ، قَالَ: فَرَمَاهُ بِسَهْمٍ فَوَضَعَهُ فِيهِ، قَالَ: فَنَزَعَهُ فَوَضَعَهُ وَثَبَتَ قَائِمًا يُصَلِّي، ثُمَّ رَمَاهُ بِسَهْمٍ آخَرَ فَوَضَعَهُ فِيهِ، قَالَ: فَنَزَعَهُ فَوَضَعَهُ وَثَبَتَ قَائِمًا يُصَلِّي، ثُمَّ عَادَ لَهُ الثَّالِثَةَ فَوَضَعَهُ فِيهِ فَنَزَعَهُ فَوَضَعَهُ، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ ، ثُمَّ أَهَبَّ صَاحِبَهُ، فَقَالَ: اجْلِسْ فَقَدْ أُثْبِتُّ فَوَثَبَ، فَلَمَّا رَآهُمَا الرَّجُلُ عَرَفَ أَنَّهُ قَدْ نَذَرَ بِهِ، فَهَرَبَ، فَلَمَّا رَأَى الْمُهَاجِرِيُّ مَا بِالأَنْصَارِيِّ مِنَ الدِّمَاءِ، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، أَفَلا أَهْبَبْتَنِي أَوَّلَ مَا رَمَاكَ؟ قَالَ: كُنْتُ فِي سُورَةٍ أَقْرَأُهَا، فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَهَا حَتَّى أُنْفِدَهَا، فَلَمَّا تَابَعَ عَلَيَّ الرَّمْيَ رَكَعْتُ فَأَذَنْتُكَ، وَايْمُ اللَّهِ لَوْلا أَنْ أُضَيِّعَ ثَغْرًا أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِهِ، لَقَطَعَ نَفْسِي قَبْلَ أَنْ أَقْطَعَهَا أَوْ أُنْفِدَهَا". هَذَا حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے (نجد کے علاقے) نخل پرغزوہ ذات الرقاع میں رسول الله صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی۔ (دوران غزوہ) ایک مسلمان نے ایک مُشرک کی بیوی کو قتل کر دیا۔ (غزوہ سے فارغ ہو کر) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لانے لگے تو اُس عورت کا شوہر آ گیا جو کہ (پہلے) موجود نہ تھا۔ جب اُسے (اس کی بیوی کے قتل کے متعلق) بتایا گیا کہ تو اس نے قسم اُٹھائی کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں خون ریزی کئے بغیر باز نہیں آئے گا۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں نکلا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو فرمایا: اس رات ہماری حفاظت کون کرے گا؟ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سن کر) ایک مہاجر صحابی اور ایک انصاری صحابی اس کام کے لیے آمادہ ہوئے، دونوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم یہ خدمت سرانجام دیں گے۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: تم دونوں گھاٹی کے منہ پر پہرہ دینا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے صحابہ کرام وادی سے گھاٹی کی طرف اُتر آئے۔ پھر جب دونوں صحابی گھاٹی کے منہ پر پہنچ گئے تو انصاری نے مہاجر سے کہا کہ آپ کو رات کا کونسا حصّہ زیادہ پسند ہے کہ میں اس میں تم کو بے نیاز کردوں، رات کا پہلا حصّہ یا آخری؟ اُس نے کہا کہ مجھے پہلے حصّے میں بے نیاز کرو (یعنی پہلے حصّے میں آرام کرنے کا موقع دے دو) لہٰذا مہاجر صحابی لیٹ کر سو گئے اور انصاری صحابی کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ اسی اثناء میں مقتولہ عورت کا خاوند آگیا، جب اُس نے دور سے انصاری صحابی کا سایہ دیکھا تو پہچان گیا کہ وہ اپنی قوم کے نگران اور پہرے دار ہیں۔ چنانچہ اُس نے اُنہیں تیر مارا جو اْن (کے جسم) میں پیوست ہو گیا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے تیر کو کھینچ کر نکالا اور اسے رکھ دیا۔ اور خود نماز میں مشغول رہے۔ پھر اُس نے دوسرا تیر مارا۔جو پھر اُن (کے جسم) میں پیوست ہو گیا، اُنہوں نے اُسے بھی کھینچ کر نکالا اور رکھ دیا اور خود نماز پڑھتے رہے، اُس نے تیسری بار تیر مارا جو اُن میں پیوست ہو گیا، اُنہوں نے اُسے (جسم سے) اکھاڑا اور (زمین پر) رکھ دیا، پھر رکوع کیا اور سجدہ کیا (نماز مکمل کی) پھرا پنے ساتھی کو جگایا اور کہا کہ اُٹھو، مجھے (تیروں سے) زخمی کر دیا گیا ہے تو وہ (چونک کر) اُٹھ بیٹھے۔ جب اُس (مشرک) نے اُن دونوں کو دیکھا تو سمجھ گیا کہ وہ اس سے خبردار ہوگئے ہیں۔ لہٰذا وہ بھاگ گیا۔ پھر جب مہاجر صحابی نے انصاری کو خون میں لت پت دیکھا تو کہا کہ سبحان اللہ، آپ نے مجھے اُسی وقت کیوں نہ جگا دیا جب اُس نے آپ کو پہلا تیر مارا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ میں ایک ایسی سورت کی تلاوت کر رہا تھا کہ جسے پہلے بھی پڑھا کرتا تھا تو میں نے اُسے مکمل کیے بغیر چھوڑنا پسند نہ کیا۔ لیکن جب اُس نے مجھے مسلسل تیروں کا نشانہ بنایا تو میں نے رُکوع کرلیا اور (نماز مکمل کرکے) آپ کو اطلاع دی۔ اللہ کی قسم، اگر اس سرحد کو ضائع کرنے کا خدشہ نہ ہوتا جس کی حفاظت اور نگہبانی کا حُکم مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے،تو اس سورت کو چھوڑنے یا مکمل کرنے سے پہلے وہ میری جان ختم کر دیتا۔ یہ محمد بن عیسٰی کی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابي داود، كتاب الطهارة، باب الوضوء من الدم، رقم الحديث: 198، مسند احمد: 343/3، من حديث ابن المبارك به ابن حبان موارد، رقم: 1093، الحاكم: 156/1، و واقعة الذهبي، وعلقة البخاري: 280/1، ”فتح الباري“ وسيرت ابن هشام: 9/2، 208، وانظر، تلخيص الحير: 15/1، 116»

   صحيح ابن خزيمة36جابر بن عبد اللهرماه بسهم فوضعه فيه قال فنزعه فوضعه وثبت قائما يصلي ثم رماه بسهم آخر فوضعه فيه قال فنزعه فوضعه وثبت قائما يصلي ثم عاد له الثالثة فوضعه فيه فنزعه فوضعه ثم ركع وسجد
   سنن أبي داود198جابر بن عبد اللهمن رجل يكلؤنا فانتدب رجل من المهاجرين ورجل من الأنصار فقال كونا بفم الشعب قال فلما خرج الرجلان إلى فم الشعب اضطجع المهاجري وقام الأنصاري يصل وأتى الرجل فلما رأى شخصه عرف أنه ربيئة للقوم فرماه بسهم فوضعه فيه فنزعه حتى رماه بثلاثة أسهم ثم ركع وسجد ثم انتبه

صحیح ابن خزیمہ کی حدیث نمبر 36 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 36  
فوائد:
حدیث دلیل ہے کہ شرمگاہوں کے سوا بدن کے کسی بھی حصے سے خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
ابو طیب شمس الحق عظیم آبادی رقم طراز ہیں، یہ حدیث دو چیزوں پر واضح دلالت کرتی ہے:
➊ اکثر علماء کا موقف ہے کہ سبیلین کے سوا بدن سے خون کا نکلنا ناقضِ وضو نہیں، خواہ خون بہنے والا ہو یا نہ بہنے والا ہو۔ اور یہی موقف راجح ہے، محمد بن اسماعیل امیر یمانی سبل السلام میں لکھتے ہیں کہ مالک، شافعی اور صحابہ و تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ سبیلین کے سوا بدن سے خون کا نکلنا ناقضِ وضو نہیں، حافظ سراج الدین بن ملق البدر المنیری بیان کرتے ہیں کہ بیہقی نے معاذ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں نکسیر اور قے سے وضو کرنا لازم نہیں، ابن مسیب سے منقول ہے کہ ان کی نکسیر پھوٹی تو انہوں نے کپڑے سے ناک صاف کی، پھر نماز ادا کی اور ابن مسعود، سالم بن عبد اللہ طاؤس، حسن بصری اور قاسم سے خون نکلنے سے وضو نہ کرنا مروی ہے۔
➋ زخموں سے نکلنے والا خون طاہر ہے اور زخمیوں کے لیے (خون آلود کپڑوں میں نماز پڑھنے کی) رخصت ہے، یہ مالکیہ کا مذہب ہے اور یہی مذہب رائج ہے۔ [عون المعبود: 203/1، 204]
مزید دلائل:
➊ مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ جس رات عمر رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تھے اسی رات وہ ان کے پاس گئے اور عمر رضی اللہ عنہ کو نمازِ صبح کے لیے بیدار کیا، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ٹھیک ہے (میں اٹھتا ہوں) اور کہا: جس نے نماز ترک کی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی جب کہ ان کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔
[موطا امام مالك، باب العمل فيمن غلبه الدم من جرح اور عاف: 51، ارواء الغليل: 209، اسناده صحيح]
➋ صحیح بخاری میں کچھ اقوال منقول ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ جسم سے خون نکلنا ناقض وضو نہیں۔
1. حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اہل اسلام ہمیشہ زخموں میں نماز پڑھتے رہے ہیں۔
2. طاؤس، محمد بن علی، عطاء بن ابی رباح اور علمائے حجاز کا بیان ہے کہ خون نکلنے سے وضو کرنا لازم نہیں ہے۔
3. ابن عمر رضی اللہ عنہ نے پھوڑا صاف کیا اور اس سے خون نکلا لیکن انہوں نے وضو نہ کیا۔
4. ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے نماز میں خون تھوکا (پھر نیا وضو کیے بغیر) نماز جاری رکھی۔
5. ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمہ اللہ سینگی لگوانے والے کے متعلق کہتے ہیں اس پر وضو لازم نہیں بلکہ وہ سینگی لگنے کی جگہ دھو لے۔
[صحيح بخاري، كتاب الوضوء، باب من لم ير الوضوء الا من المخرجين من القبل والدبر]
   صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 36   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 198  
´زخم سے خون بہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا`
«. . . وَلَمَّا رَأَى الْمُهَاجِرِيُّ مَا بِالْأَنْصَارِيِّ مِنَ الدَّمِ، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، أَلَا أَنْبَهْتَنِي أَوَّلَ مَا رَمَى؟ قَالَ: كُنْتَ فِي سُورَةٍ أَقْرَؤُهَا فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَهَا . . .»
. . . جب مہاجر نے انصاری کا خون دیکھا تو کہا: سبحان اللہ! آپ نے پہلے ہی تیر میں مجھے کیوں نہیں بیدار کیا؟ تو انصاری نے کہا: میں (نماز میں قرآن کی) ایک سورۃ پڑھ رہا تھا، مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میں اسے بند کروں (ادھوری چھوڑوں) . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 198]
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زخم سے خون بہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نہ نماز فاسد ہوتی ہے۔ جو لوگ خون کے بہنے سے وضو کے ٹوٹ جانے کے قائل ہیں، وہ ایک تو حیض اور استحاضے کے خون سے اور نکسیر کی بابت روایات سے استدلال کرتے ہیں جن میں نکسیر پھوٹنے کو بھی ناقض وضو بتلایا گیا ہے۔ حالانکہ حیض یا استحاضے کے خون کی حثییت عام زخم سے بہنے والے خون سے یکسر مختلف ہے۔ اس لیے کہ ان کے تو احکام ہی مختلف ہیں۔ علاوہ ازیں وہ خون «سبيلين» شرم گاہوں سے نکلتا ہے جو بالاتفاق ناقض وضو ہے۔ جب کہ زخموں سے نکلنے والے خون کی یہ حیثیت نہیں۔ اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگوں میں زخمی ہوتے رہے اور اسی حالت میں وہ نمازیں بھی پڑھتے رہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمی صحابہ کو نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ عام زخموں سے نکلنے والا خون ناقض وضو نہیں ہے۔ علاوہ ازیں نکسیر سے وضو کرنے والی روایات سے بھی استدلال کیا جاتا ہے جو کہ سب کی سب ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: [عون المعبود]
➋ غزوہ ذات الرقاع امام بخاری رحمہ اللہ کی ترتیب کے مطابق خیبر کے بعد ہوا تھا۔
➌ اس کی وجہ تسمیہ ایک تو یہ ہے کہ اس موقع پر مجاہدین نے اپنے پاؤں زخمی ہونے کے باعث پٹیاں باندھی تھیں۔ علاوہ ازیں بھی کچھ وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔
➍ جہاد میں بالخصوص اور دیگر مواقع پر بالعموم پہریداری کا انتظام توکل کے خلاف نہیں بلکہ مسنون اور حکمت جنگ کا ایک لازمی حصہ ہے۔
➎ مجاہدین اسلام دوران جہاد میں بھی اپنے وقت کو قیمتی اعمال میں صرف کرتے تھے جیسے کہ اس انصاری نے پہریداری کے دوران نماز اور تلاوت قرآن شروع کر دی اور وہ سورت، جو یہ مجاہد پڑھ رہا تھا، سورہ کہف تھی۔
➏ نماز اور قرآن سے محبت ہی صحابہ کرام کا امتیاز و شرف تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 198   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود198  
مطلقاً خون کا حکم
حیض کا خون (نجس ہے)۔
حیض کے خون کے علاوہ بقیہ تمام خونوں کے نجس و پلید ہونے کے دلائل واضح و مضبوط نہیں ہیں بلکہ مضطرب، ضعیف ہیں اس لیے اصل (طہارت) کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر ہے تاوقتیکہ کوئی واضح دلیل مل جائے۔ نیز اس آیت:
«قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ»[6-الأنعام:145]
سے استدلال کرتے ہوئے خون کو نجس قرار دینا درست نہیں کیونکہ اس آیت میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ لفظ «رجس» سے مراد صرف خنزیر کا گوشت ہی ہے یا بقیہ تمام اشیاء بھی۔ اس کے برخلاف صحیح و قوی دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ بقیہ تمام خون پاک ہیں۔
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھاٹی میں اتر کر صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا: آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا؟ تو مہاجرین و انصار میں سے ایک ایک آدمی کھڑا ہو گیا پھر انہوں نے گھاٹی کے دہانے پر رات گزاری۔ انہوں نے رات کا وقت پہرے کے تقسیم کر لیا، لہٰذا مہاجر سو گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ اچانک دشمن کے ایک آدمی نے انصاری کو دیکھا اور اسے تیر مار دیا۔ انصاری نے تیر نکال دیا اور اپنی نماز جاری رکھی۔ پھر اس نے دوسرا تیر مارا تو انصاری نے پھر اسی طرح کیا۔ پھر اس نے تیسرا تیر مارا تو اس نے تیر نکال کر رکوع و سجدہ کیا اور اپنی نماز کو مکمل کر لیا۔ پھر اس نے اپنے ساتھی کو جگایا جب اس نے اسے ایسی (خون آلود) حالت میں دیکھا تو کہا: جب پہلی مرتبہ اس نے تمہیں تیر مارا تو تم نے مجھے کیوں نہیں جگایا؟ تو اس نے کہا: میں ایک سورت کی تلاوت کر رہا تھا کہ جسے کاٹنا میں نے پسند نہیں کیا۔ [أبو داود 198] ۱؎
➋ امام حسن رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ
«مَا زَالَ الْمُسْلِمُونَ يُصَلُّونَ فِي جِرَاحَاتِهِمْ»
ہمیشہ سے مسلمان اپنے زخموں میں نماز پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے معلق بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري قبل الحديث 176]
جبکہ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اسے صحیح سند کے ساتھ موصول بیان کیا ہے۔ [فتح الباري 281/1]
(البانی رحمہ اللہ) یہ حدیث (یعنی جس میں صحابی کو تیر لگنے کا قصہ ہے) [أبو داود 198] حکماً مرفوع ہے کیونکہ یہ عادۃ ناممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہ ہوئی ہو، اگر کثیر خون ناقض ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے بیان کر دیتے کیونکہ «تاخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز» ضرورت کے وقت سے وضاحت کو مؤخر کر دینا جائز نہیں۔ جیسا کہ علم الاصول میں یہ بات معروف ہے۔ اور اگر بالفرض یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مخفی رہ گئی ہو تو اللہ تعالیٰ پر یہ بات نہیں رہ سکتی تھی کہ جس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں لہٰذا اگر خون ناقض یا نجس ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی طرف وحی نازل فرما دیتے جیسا کہ یہ بات ظاہر ہے کسی پر مخفی نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ بھی اس کے قائل ہیں جیسا کہ ان کا بعض (گزشتہ مذکور) آثار معلق بیان کرنا اس کی دلیل ہے۔ [تمام المنة ص /52]
(ابن حزم رحمہ اللہ) اسی کے قائل ہیں۔ [المحلي 255/1]
فقہی اعتبار سے حیض کے خون اور بقیہ خونوں کو برابر قرار دینا دو وجوہ کی بنا پر واضح غلطی ہے۔
➊ اس پر کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ہے اور اصل براءت ذمہ ہے الا کہ کوئی نص مل جائے۔
➋ یہ سنت کے مخالف ہے جیسا کہ گزشتہ انصاری صحابی کی حدیث (انسان کے خون کے متعلق) بیان کر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں حیوان کے خون کے متعلق حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث میں مروی ہے کہ انہوں نے اونٹ کو نحر کیا تو اس کا خون اور اوجھ کا گوبر انہیں لگ گیا درایں اثناء نماز قائم کر دی گئی۔ انہوں نے بھی نماز پڑھی لیکن وضوء نہیں کیا۔ [ابن أبى شيبة 392/1] ۲؎
(شوکانی رحمہ اللہ) حیض کے خون پر بقیہ خونوں کو قیاس کرنا صحیح نہیں، نیز بقیہ خونوں کے نجس ہونے کے متعلق کوئی صریح دلیل موجود نہیں۔ [السيل الجرار 40/1]
(صدیق حسن خان رحمہ اللہ) بقیہ تمام خونوں کے نجس ہونے کے دلائل مختلف و مضطرب ہیں۔ [الروضة الندية 82/1]

اس مسئلے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(قرطبی رحمہ اللہ) خون کے نجس ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ [تفسير قرطبي 221/2]
اس کے جواب میں شیخ البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ یہ بات محل نظر ہے جیسا کہ ابھی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی گئی ہے۔ [التعليقات الرضية على الروضة الندية 110/1]
(احناف) خون پیشاب اور شراب کی طرح پلید ہے۔ اگر ایک درہم سے زائد کپڑے کو لگا ہو تو اس میں نماز جائز نہیں لیکن اگر درہم یا اس سے کم مقدار میں لگا ہو تو نماز درست ہے کیونکہ یہ اتنی قلیل مقدار ہے کہ جس سے بچنا ناممکن ہے۔ [عمدة القاري 903/1]
انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایات سے استدلال کیا ہے، لیکن وہ ضعیف ہیں۔ [تحفة الأحوذي 447/1]
(احمد رحمہ اللہ، اسحاق رحمہ اللہ) اگر مقدار درہم سے زائد خون بھی کپڑے کو لگا ہو تب بھی نماز کو نہیں دہرایا جائے گا۔ (کیونکہ یہ نجس نہیں ہے) جیسا کہ گزشتہ احادیث اس پر شاہد ہیں۔ [تحفة الأحوذي 447/1]
(راجح) امام احمد رحمہ اللہ کا موقف راجح ہے کیونکہ گزشتہ صریح دلائل اسی کے متقاضی ہیں۔
۱؎ [صحيح، صحيح أبو داود 193، كتاب الطهارة: باب الوضوء من الدم، أبو داود 198، احمد 343/3، دارقطني 322/1، ابن خزيمة 36، حاكم 1571، بيهقي 140/1]
۲؎ [صحيح: تمام المنه ص /52، عبد الرزاق 125/1، ابن أبى شيبة 392/1، طبراني كبير 284/9، الجعديات للبغوي 887/2]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 148   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.