ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
والدليل على ان قول النبي صلى الله عليه وسلم: " رفع القلم عن ثلاث "، اراد القلم مما يكون إثما ووزرا على البالغ إذا ارتكبه، لا ان القلم مرفوع عن كتابة الحسنات للصبي إذا عملهاوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثٍ "، أَرَادَ الْقَلَمَ مِمَّا يَكُونُ إِثْمًا وَوِزْرًا عَلَى الْبَالِغِ إِذَا ارْتَكَبَهُ، لَا أَنَّ الْقَلَمَ مَرْفُوعٌ عَنْ كِتَابَةِ الْحَسَنَاتِ لِلصَّبِيِّ إِذَا عَمِلَهَا
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان تین افراد سے قلم اُٹھایا لیا گیا ہے: اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ ان افراد پر وہ گناہ نہیں لکھے جائیںگے جو ایک بالغ شخص کے ارتکاب پر لکھے جاتے ہیں
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ سے واپس روانہ ہوئے تو جب آپ روحاء مقام پر پہنچ تو آپ کی ملاقات ایک قافلے سے ہوئی، آپ نے اُنھیں سلام کیا اور پوچھا: ”تم کون لوگ ہو؟“ انھوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں۔ پھر اُنھوں نے عرض کیا کہ آپ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ کا رسول ہوں“ اُن میں سے ایک عورت گھبرا گئی اور اُس نے اپنے بچّے کو جھولے سے نکال کر بازو سے پکڑ کر اوپر اُٹھایا اور بولی کہ اے اللہ کے رسول، کیا اس بچّے کا حج ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ہے اورتمھیں اس کا اجر ملے گا “ جناب ابراہیم بن عقبہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن منکدر کو سنائی تو اُنھوں نے اپنے سب گھر والوں سمیت حج کیا۔ جناب سفیان کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ وہ عورت گھبراگئی اور وہ بولی، کیا اس کا حج ہے؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ہاں) اور تمھیں اس کا اجر ملے گا۔ “ یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔