الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1934
1934. حضرت حمران سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ انھوں نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں پر تین تین بار پانی بہایا۔ پھر کلی اور ناک میں پانی ڈالا اس کے بعد تین بار چہرہ دھویا پھر دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا۔ اس کے بعد سرکا مسح کیا۔ پھر دایاں پاؤں تین بار اس کے بعد بایاں پاؤں تین بار دھویا، پھر فرمایا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور فرمایا: ”جس نے میرے وضو جیسا وضو کیا، پھر دو رکعتیں پڑھیں اور دل میں کوئی خیال نہ لایا تو اس کے پچھلے سب گناہ بخش دیے جائیں گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1934]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث کے معنی ہیں کہ جس شخص نے کامل وضو کیا جو اس کی تمام سنتوں پر مشتمل ہو، ان میں مسواک بھی شامل ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسواک کے خشک یا تر ہونے میں کوئی فرق نہیں۔
مسواک کرنے میں روزہ دار اور غیر روزہ دار کی تفریق کو روا نہیں رکھا گیا، اس لیے روزہ دار مسواک کر سکتا ہے۔
مسواک تر ہو یا خشک، روزہ فرض ہو یا نفل، دن کے آغاز میں کی جائے یا اس کے آخری حصے میں اسے استعمال کیا جائے، سب جائز ہے۔
قبل ازیں امام ابن سیرین نے مسواک کرنے کو وضو پر قیاس کیا تھا۔
آپ نے فرمایا:
روزہ دار کے لیے تازہ مسواک کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔
ان سے غرض کیا گیا کہ تازہ مسواک کا ذائقہ ہوتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا:
پانی کا بھی ذائقہ ہوتا ہے، حالانکہ تم اس سے کلی کرتے ہو۔
امام بخاری نے روزہ دار کے لیے مسواک کرنے کا جواز ثابت کرنے کے لیے حدیث عثمان کو بیان کیا ہے جس میں وضو کا طریقہ بیان ہوا ہے۔
اس میں وضاحت ہے کہ آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔
اس وضو میں روزہ دار اور افطار کرنے والے کا فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا۔
دراصل امام بخاری ؒ ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو روزے دار کے لیے تازہ مسواک کو مکروہ خیال کرتے ہیں۔
(فتح الباري: 202/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1934